امریکی سپریم کورٹ نے ریاست ٹیکساس کی انتخابات میں بدنظمی کی بنیاد پر نتائج مسترد کرنے کی درخواست یہ کہتے ہوئے مسترد کر دی ہے کہ اس کی آئین میں گنجائش نہیں ہے۔
جسٹس سیموئل الیتو اور کلیرینس تھامس نے کہا ہے کہ آئین کی شق نمبر 3 کے تحت درخواست کی بنیاد نہیں بنتی، درخواست میں ریاستی انتخابی قانونی معاملات میں عدالتی مداخلت کی کوئی مثال بھی نہیں دی گئی ہے کہ اس کی بنیاد پر مقدمے کو سنا جا سکے۔ عدالت نے اس کے علاوہ کسی معاملے پر گفتگو سے بھی اجتناب کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ کسی دوسرے معاملے پر رائے دہی نہیں کریں گے۔ وہ درخواست پر پہلے بھی اعتراض لگا کر مسترد کر سکتے تھے لیکن وہ درخواست گزار کو درخواست کے بنیادی حق سے محروم نہیں رکھنا چاہتے تھے، تاہم درخواست کی کوئی آئینی بنیاد ضرور ہونا چاہیے۔
واضح رہے کہ امریکی قانون کے مطابق ریاستوں کے آپسی مسائل کی صورت میں سپریم کورٹ ہی معاملات کے حل کا اختیاررکھتی ہے۔ ٹیکساس نے پنسلوینیا، جارجیا، مشی گن اور وسکونسن کے خلاف متناعہ انتخابی نتائج کے اعلان پر انہیں کالعدم قرار دینے کی درخواست دی تھی اور مؤقف اختیار کیا تھا کہ ان ریاستوں میں بدانتظامی سے پورے ملک میں انتخابی نتائج متاثر ہوئے اور صدارتی انتخابات کی ساکھ کو نقصان پہنچا۔
واضح رہے کہ ٹیکساس کی حمایت میں مزید 18 ریاستوں نے بھی سپریم کورٹ میں انتخابات کو کالعدم قرار دینے کی درخواست جمع کروا دی تھی اور اسکے جواب میں پنسلوینیا گروہ کی حمایت میں بھی 19 ڈیموکریٹ ریاستوں اور 2 جزیروں نے انکی حمایت کا اعلان کردیا تھا۔
دوسری طرف صدر ٹرمپ نے بھی ٹیکساس اور 18 ریاستوں کے سپریم کورٹ سے رجوع کے بعد اعلیٰ عدالت جانے کے ارادے کا اظہار کیا تھا اور انہوں نے درخواست کو سماعت کے لیے منظور کیے جانے پر اسے سراہا بھی تھا۔