ایران نے عالمی جوہری ایجنسی کے سربراہ کی جوبائیڈن کے حکومت میں آنے پر دوبارہ معاہدے کی تجویز کو مسترد کر دیا ہے۔
ویانا میں عالمی جوہری ایجنسی کے لیے ایرانی سفیر کاظم غریب آبادی نے ٹویٹر پر کہا کہ ایجنسی کے پاس ممالک کے سیاسی حالات کی وضاحت یا ان پر تبصرے کا اختیار نہیں ہے، اور اسے ایسا کرنے سے اجتناب ہی کرنا چاہیے۔ کوئی بھی معاہدہ انتہائی احتیاط سے لکھا جاتا ہے اور دونوں فریقین کو علم ہوتا ہے کہ اسکا پاس کیسے کرنا ہے۔ اور اگر امریکہ دوبارہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے میں آنا چاہتا ہے تو ایسا نئی گفتگو کے ذریعے یا نئی شرائط پر نہیں ہو گا، نہ تو نئی معاہدے کو لکھنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی جوہری ایجنسی کے کردار پر نئی شرائط کو عائد کرنے کی، ایسا کرنا معاملے کو مزید پیچیدہ کر دے گا، جس کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔
دوسری طرف عالمی جوہری ایجنسی کا کہنا ہے کہ وہ ایرانی جوہری محرکات پر نظر رکھے ہوئے ہے اور ایران نے امریکہ کے معاہدے سے نکل جانے کے بعد بہت سی حدود کو پھلانگا ہے۔ رافیل گروسی کا کہنا ہے کہ ایران جوہری میدان میں بہت متحرک ہو گیا ہے، اس کے پاس اب پہلے سے زیادہ سینٹریفیوج ہیں اور انکا اعلان بھی کیا جا رہا ہے، ایسے میں پہلا معاہدہ کیا وقعت رکھتا ہے، اسے سیاسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہو گی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ میں جوبائیڈن کے اقتدار میں آتے ہی ایران کے ساتھ کیے معاہدے کو بحال کیا جا سکتا ہے، جبکہ معاہدے کے یورپی فریق پہلے ہی اسے بچانے کی کوششوں میں مصروف رہے ہیں۔