Shadow
سرخیاں
پولینڈ: یوکرینی گندم کی درآمد پر کسانوں کا احتجاج، سرحد بند کر دیخود کشی کے لیے آن لائن سہولت، بین الاقوامی نیٹ ورک ملوث، صرف برطانیہ میں 130 افراد کی موت، چشم کشا انکشافاتپوپ فرانسس کی یک صنف سماج کے نظریہ پر سخت تنقید، دور جدید کا بدترین نظریہ قرار دے دیاصدر ایردوعان کا اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں رنگ برنگے بینروں پر اعتراض، ہم جنس پرستی سے مشابہہ قرار دے دیا، معاملہ سیکرٹری جنرل کے سامنے اٹھانے کا عندیامغرب روس کو شکست دینے کے خبط میں مبتلا ہے، یہ ان کے خود کے لیے بھی خطرناک ہے: جنرل اسمبلی اجلاس میں سرگئی لاوروو کا خطاباروناچل پردیش: 3 کھلاڑی چین اور ہندوستان کے مابین متنازعہ علاقے کی سیاست کا نشانہ بن گئے، ایشیائی کھیلوں کے مقابلے میں شامل نہ ہو سکےایشیا میں امن و استحکام کے لیے چین کا ایک اور بڑا قدم: شام کے ساتھ تذویراتی تعلقات کا اعلانامریکی تاریخ کی سب سے بڑی خفیہ و حساس دستاویزات کی چوری: انوکھے طریقے پر ادارے سر پکڑ کر بیٹھ گئےیورپی کمیشن صدر نے دوسری جنگ عظیم میں جاپان پر جوہری حملے کا ذمہ دار روس کو قرار دے دیااگر خطے میں کوئی بھی ملک جوہری قوت بنتا ہے تو سعودیہ بھی مجبور ہو گا کہ جوہری ہتھیار حاصل کرے: محمد بن سلمان

کووڈ-19 کی نئی قسم کو لے کر خبروں پر طبی ماہرین کی کڑی تنقید: برطانوی حکومتی دعوؤں کو بھی مبالغہ آرائی قرار دے دیا

کووڈ-19 کورونا وائرس کی نئی اور مزید خطرناک قسم کا دنیا بھر میں پھیلاؤ تیز ہو گیا ہے۔ برطانیہ سے شروع ہونے والے وائرس کے شکار افراد کی آئرلینڈ، لبنان، جاپان، جرمنی، فرانس وغیرہ میں تصدیق ہو چکی ہے۔

کورونا کے نئے وائرس کے بارے میں بہت کم معلومات موجود ہیں، تاہم ماہرین کے مطابق ذرائع ابلاغ کا پیدا کردہ خوف اور اسے دنیا کا آخیر قرار دینا غلط ہے۔

کووڈ-19 کی نئی قسم کا وائرس پہلی بار ستمبر 2020 میں برطانیہ میں سامنے آیا تھا، اور حکومتی اعدادوشمار کے مطابق اس وقت برطانیہ میں کورونا کے دو تہائی مریض نئی قسم کے وائرس کا شکار ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ برطانوی حکومت نے ملک بھر میں تالہ بندی میں مزید سختی اور شدید متاثرہ علاقوں کو مکمل طور پر بند کر دیا ہے، جن میں لندن کا جنوب مشرقی علاقہ بھی شامل ہے۔

دوسری جانب اب تک 50 سے زائد ممالک نے برطانیہ پر سفری پابندی عائد کر دی ہے، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ بندش کافی تاخیر سے اپنائی گئی، چند روز میں دنیا بھر میں کووڈ-19 کی نئی قسم کے مریضوں میں اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔

کووڈ-19 کی نئی قسم میں کیا ہے؟

برطانوی حکومت کے مطابق کووڈ-19 کی نئی قسم اسے اس کے پھیلاؤ اور بیمار کرنے کی صلاحیت پہلی قسم سے الگ کرتی ہے۔ برطانوی وزیراعظم کا کہنا ہے کہ نئی قسم کی انسانوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت پہلے وائرس کی نسبت 70٪ زیادہ ہے، تاہم طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومتی رائے مبالغہ آرائی پر مبنی ہے، جبکہ اس میں ذرائع ابلاغ جلتی پر تیل کا کردار ادا کر رہا ہے۔ برطانوی سماجی و حیاتیاتی ماہرین نے ذرائع ابلاغ کی جانب سے وائرس کی نئی قسم کی رپورٹنگ کرتے ہوئے “کرسمس سے قبل ڈراؤنا خواب”، “مزید خطرناک کووڈ”، سائنسدان خوفزدہ” کی سرخیوں پر کڑی تنقید کی ہے۔

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ نئی قسم کے زیادہ تیزی سے پھیلاؤ کا تاحال کوئی سائنسی ثبوت نہیں ہے بلکہ تاحال اس بارے میں کوئی تحقیق کی ہی نہیں گئی اور اس بارے میں زیادہ معلومات بھی موجود نہیں ہیں۔ محققین کا مزید کہنا ہے کہ کووڈ-19 کی پہلی قسم بھی چینی شہر ووہان میں سامنے آنے والی قسم سے مختلف تھی اور اب نئی قسم سے بچوں کے زیادہ متاثر ہونے کے دعوؤں کی بھی محققین کی جانب سے تردید کی جا رہی ہے۔

نئے وائرس سے لاحق خطرات

ماہرین کے مطابق وائرس کی یورپ میں پہلی قسم بھی تبدیل شدہ تھی جسے ڈی614جی کا نام دیا گیا تھا، اور بعد میں یہی دنیا بھر میں پھیل گئی، وائرس کی اس قسم کے بارے میں سائنسدانوں کا دعویٰ تھا کہ یہ ووہان کی نسبت 9 فیصد زیادہ پھیلاؤ کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن یہ تعداد دعوے سے کئی گنا کم رہی۔ اس کے علاوہ ہسپانیہ میں سامنے آنے والی قسم کو اے222وی کا نام دیا گیا تھا، جس سے یورپ کی 7 فیصد آبادی متاثر ہوئی تھی۔

عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ وائرسوں میں وقت کے ساتھ معمولی جینیاتی تبدیلیاں ایک عمومی عمل ہے،اس میں کوئی اچنبے کی بات نہیں ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ماہرین وائرس کی نئی قسم کے بارے میں مزید خطرناک ہونے کے دعوؤں کی تردید کر رہے ہیں۔

کیا تیار شدہ ویکسین کووڈ-19 کی نئی قسم سے بچا سکے گی؟

تاحال سائنسدان اس پر متفق ہیں کہ تیار کردہ ویکسین وائرس کی نئی قسم کے لیے بھی مؤثر ہے تاہم اگر وائرس میں جینیاتی تبدیلی کا عمل جاری رہا تو آگے چل کر اب تک تیار کردہ تینوں ویکسین غیر مؤثر ہو سکتی ہیں۔ انفلوئنزہ وائرس کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے، یہی وجہ ہے کہ وائرس کی ہر سال نئی ویکسین تیار کرنا پڑتی ہے۔ تاہم کووڈ-19 وائرس کے ساتھ تاحال ایسا معاملہ نہیں ہے، یہ انفلوئنزہ کیے وائرس کی طرح تیزی کے ساتھ جینیاتی طور پر تبدیل نہیں ہو رہا۔ اس کے باوجود جرمنی کے ماہرین نے ایسا ہونے پر 6 ماہ میں نئی ویکسین تیار کرنے کی صلاحیت کا دعویٰ کیا ہے۔

دوسری جانب محققین اینٹی باڈیوں کی مدد سے کووڈ-19 کے جسم میں بڑھنے کے عمل کو روکنے پر کام کر رہے ہیں، ماہرین کے مطابق یہ طریقہ ویکسین سے بھی زیادہ مؤثر اور تیز ہو گا، ویکسین مکمل مدافعت پیدا کرنے سے 6 ماہ کا وقت لے سکتی ہے تاہم اینٹی باڈی فوری دفاع کا باعث بنتی ہے۔

دوست و احباب کو تجویز کریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

four × three =

Contact Us