برطانوی حکومت نے شہریوں میں بڑھتے موٹاپے اور غیر صحتمند رحجان کو روکنے کے لیے اہم اور بڑا قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایک نئے قانون کے تحت برطانیہ میں بازاروں اور دکانوں میں چپس، چاکلیٹ، بوتلیں اور دیگر غیر خالص/فیکٹریوں میں تیار کردہ اشیاء کو نمایاں جگہوں، راہداریوں پر سجانے/رکھنے پر پابندی لگا دی جائے گی۔
مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق قانون میں آہستہ آہستہ مزید سختی لائی جائے گی، اور 2022 تک ایسی غیر صحتمد اشیاء پر خصوصی بچت، اشتہارات وغیرہ پر بھی پابندی لگا دی جائے گی۔
اطلاعات کے مطابق ابتداء میں چھوٹے دکانداروں کو کچھ وقت دیا جائے گا تاہم بڑی مارکیٹوں میں قانون پر سختی سے عمل کروایا جائے گا۔
مارکیٹ ماہرین کے مطابق قانون سے برطانیہ میں بہت سے بڑے مارکے شدید متاثر ہو سکتے ہیں، جن میں معروف کریانہ سٹور ٹیسکو، ایمازون، نندوس اور کھوکھے والے بھی متاثر ہوں گے۔
قانون پر مقامی سماجی حلقوں میں ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے، سماجی میڈیا پر قانون کی ستائش کی جارہی ہے اور اسے عوامی صحت کے لیے اچھا اقدام قرار دیا جارہا ہے، تاہم ٹی وی شو میں کچھ ماہرین اسے حکومتی جبر سے تعبیر دے رہے ہیں، انکا کہنا ہے کہ ایک آزاد شہری ہونے کے ناطے وہ جو چاہیں کر سکتے ہیں، کھا سکتے ہیں، مسئلہ عوامی آگاہی اور صحت مند خوراک کا مہنگا ہونا ہے، اگر حکومت واقع عوامی صحت کے لیے فکرمند ہے تو اسے بڑھتی معاشی تفریق ختم کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے۔
دوسری طرف امریکی شہریوں کی جانب سے بھی قانون کی ستائش کی جا رہی ہے، اور انہوں نے امریکہ میں بھی ایسا قانون لانے پر زور دیا ہے۔
یاد رہے کہ برطانوی وزیراعظم نے کورونا وباء کے دوران تالہ بندی کے نتیجے میں موٹاپے کی بڑھتی شکایت کے جواب میں عوامی آگاہی کے لیے تقریباً ڈیڑھ کروڑ ڈالر کی رقم مختص کی ہے۔
یاد رہے کہ برطانوی حکومت کے اعدادوشمار کے مطابق ملک کے 67٪ مرد اور 60٪ خواتین یا تو موٹاپے کا شکار ہیں یا وہ معیار سے زائد وزن کے حامل ہیں، جبکہ بچوں میں بھی موٹاپے کی شکایت دوگنا ہو چکی ہے، اور یہ رحجان خصوصی طور پر ان علاقوں میں زیادہ ہے جہاں نسبتاً غریب افراد رہائش پذیر ہیں۔