چین اور امریکہ کے مابین تجاری و سفارتی جنگ اب لفاظی میدان میں بھی اپنے عروج پر ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے چین کے انٹارکٹکا کے معاملات میں متحرک ہونے پر طنزیہ ٹویٹ داغا تو چینی لفاظی گولہ باری کے ماہربھی پیش پیش نظر آئے۔
مائیک پومپیو نے اپنی اشتعال انگیز ٹویٹ میں کہا تھا کہ ہم چین کو اس خیالی دنیا سے نکالنا چاہتے ہیں کہ وہ انٹارکٹکا سے نزدیکی قوم کے کے ناطے اس کے معاملات میں حصہ لینے کا حقدار ہے۔ چین براعظم انٹارکٹکا سے 900 میل دور ہے، چیونٹی خور کی ناک سے مشابہت والا یہ ملک اپنی اوقات سے باہر بہت باہر نکل گیا ہے، ہم غیر ضروری حاضرین کے ساتھ وہی کرتے ہیں جو ہم اب کر رہے ہیں۔
امریکی وزیر کی ٹویٹ پر چینی حکومتی نشریاتی ادارے گلوبل ٹائمز کے سربراہ ہو ژنجن نے جوابی وار میں کسی بدتہذیبی کا مظاہرہ کیے بغیر کہا ہے کہ وزیر صاحب اگرماپنا ہی ہے تو امریکہ اور بحیرہ جنوبی چین کے درمیان مسافت کو ناپیں۔
واضح رہے کہ 2018 سے چین ہر عالمی سفارتی نشست میں خود کو انٹارکٹکا کی نزدیکی ریاست گردان رہا ہے، اور اس کا دعویٰ ہے کہ برفانی علاقے کے معاملات پر اسے اپنی رائے دینے اور اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کا پورا حق ہے، تاہم چینی دعوؤں کو امریکہ کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔
فی الحال انٹارکٹکا کی عالمی کونسل کے اراکین میں امریکہ، کینیڈا، روس، ناروے، سویڈن، فن لینڈ، آئس لینڈ اور ڈنمارک شامل ہیں۔ اور چین، برطانیہ، پولینڈ، جرمنی، جاپان اور ہندوستان اس کے مشاہداتی ارکان ہے، تاہم یہ بھی اس کے مستقل رکن بننا چاہتے ہیں، لیکن امریکہ چین کی رکنیت کا سخت مخالف ہے۔
دوسری طرف چین کا کہنا ہے کہ چین انٹارکٹکا کونسل کا رکن ہے لیکن امریکہ چین کی رائے دہی پر اعتراض کرتا ہے، جبکہ امریکہ بحیرہ جنوبی چین میں اپنی سرحدوں سے ہزاروں میل دور چینی پانیوں میں آزادی سے جنگی جہازوں کے ساتھ گھومتا ہے اور اسے اپنا حق سمجھتا ہے، امریکہ کو یہ دوہرا معیار ختم کرنا ہو گا۔
واضح رہے کہ گزشتہ ایک دو برسوں میں امریکی اور چینی اعلیٰ سفارتکاروں میں لفاظی جنگ اپنے عروج پر ہے، پہلے چین روائیتی خاموشی سے کام لیتا تھا لیکن اب چین بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دے رہا ہے، جس کے لیے چینی سفارت کار اور صحافی باقائدہ مہم کی صورت میں امریکی سماجی میڈیا ویب سائٹوں کا استعمال بھی کر رہے ہیں، اور ان میں نمایاں نام گلوبل ٹائمز کے مدیر ہو ژنجن اور چائینہ ڈیلی کے یورپی دفتر کے مدیر چن ویہوا کا ہے۔