امریکی ابلاغی ٹیکنالوجی کمپنی ٹویٹر کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا اکاؤنٹ بند کرنے پر تمام آزاد حلقوں کی جانب سے ناراضگی اور خطرات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ماہرین کہنا ہے کہ گزشتہ چار سالوں سے یہ لبرل ادارے غیر لبرل حکومتوں کے لیے مسئلہ بنے ہوئے تھے تاہم امریکی انتخابات میں انہوں نے کھل کر صدر ٹرمپ کو نقصان پہنچایا اور ایک بڑی سیاسی قوت کی شکل اختیار کر لی ہے، جس نے بظاہر صدر ٹرمپ کے مخالف کی مدد کی ہے لیکن حقیقت میں دنیا بھر میں آزادی خیال کے لیے خطرہ بن گئی ہیں۔
معروف مصنف اور لبرل مطالعہ کے ماہر پروفیسر مائیکل ریکٹینوالڈ کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کا اپنی ابلاغی ٹیکنالوجی کمپنی کھولنے کا اعلان اپنی جگہ لیکن اسکی کامیابی ایک سوالیہ نشان ہے، جس کی بڑی وجہ آن لائن ایپلیکیشن کے لیے دنیا میں معروف دونوں پروگرام آئی او ای س اور اینڈرائڈ خود ہوں گے۔
پروفیسر کا مزید کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ کے خلاف ہونے والی کارروائی آخری نہیں ہے اور انکا پیچھا صدارت کے بعد بھی کیا جائے گا، اقدامات واضح طور پر سیاسی ہیں۔ اوباما حکومت نے ٹیکنالوجی کمپنیوں کو بھرپور مدد فراہم کی جس کے باعث یہ کمپنیاں ڈیجیٹل ابلاغیات کی صنعت میں پوری طرح قبضہ کر چکی ہیں، اب گوگل، فیس بک اور ٹویٹر سب ایک طرف ہیں اور دنیا دوسری طرف ہے۔ صارفین کی معلومات کی بنیاد پر مارکیٹ کو منظم کیا جا رہا ہے اور دنیا بھر میں حکومتیں بے بس ہیں۔
رشیا ٹوڈے سے گفتگو میں پروفیسر مائیکل کا مزید کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ کو اب کسی حد تک کمزوری کا بھی سامنا ہے، بہت سے افراد انہیں اکیلا چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں۔ خصوصاً بہت سے افراد کیپیٹل ہِل پر دھاوے کے بعد سے خود کو بچانا چاہتے ہیں کیونکہ اب ان سے جڑنے کا مطلب مستقبل میں مسائل ہے۔
تاہم صدر ٹرمپ نے مزاحمت کرنے کا اعلان کیا ہے، اور کہا ہے کہ وہ ایک نئی سوشل میڈیا کمپنی شروع کریں گے۔ انکا منصوبہ کس حد تک کامیاب رہتا ہے، اس بارے میں ابھی کچھ کہنا مشکل ہے۔ معروف ایپلیکیشن سٹور اس حوالے سے مشکلات کھڑی کرنے کا واضح عندیا بھی دے چکے ہیں۔ 2018 سے چلنے والی ایپلیکیشن پارلیر کو گوگل سٹور نے بروز ہفتہ کسی معمولی سی وجہ پر بند کر دیا ہے، پارلیر امریکہ میں روایت پسندوں میں کافی مقبول تھی اور وہ صارفین پر سنسر کے خلاف تھی۔ امریکی ٹیکنالوجی خبروں کی ویب سائٹ کے مطابق ایپل بھی ایسا ہی اقدام اٹھا سکتی ہے۔