امریکی ایوان نمائندگان نے صدر ٹرمپ کے خلاف شہریوں کو کیپیٹل ہِل پر دھاوا بولنے کے لیے اکسانے کے الزام پر مواخذے سے گزارنے کی سفارش کی ہے۔
امریکی نشریاتی اداروں پر چلنے والی خبروں کے مطابق معاملے پر خصوصی قانون سازی کے لیے کام ہو رہا ہے جس میں صدر ٹرمپ پر آئین سے وفا نہ کرنے اور شہریوں کو حکومت کے خلاف اکسانے پرانہیں سزا کا حقدار ٹھہرایا جائے گا۔
سامنے آنے والے دستاویز میں صدر ٹرمپ پرانتخابی نتائج کے حوالے سے جھوٹ کا الزام بھی شامل ہے، اور کہا گیا ہے کہ صدر نے جانتے بوجھتے انتخابات کے حوالے سے جھوٹ بولا، جس کے نتیجے میں کییٹل ہل پر حملے کی نوعیت پیدا ہوئی۔ دستاویز میں صدر ٹرمپ کے خطاب سے ایک جملے کو بطور حوالہ بھی پیش کیا گیا ہے، جس میں صدر نے مظاہرین سے کہا تھا کہ اگر آپ پوری جان لگا کر نہ لڑے تو اپنا ملک کھو دیں گے۔
قانونی مسودہ 200 سے زائد ڈیموکریٹ جماعت کے نمائندگان کی طرف سے پیش کیا گیا ہے۔
دوسری طرف اسپیکر نینسی پلوسی کا کہنا ہے کہ ایوان 25ویں ترمیم کے ذریعے صدر ٹرمپ کو ہٹانے کی قرارداد لانے کی منصوبہ بندی بھی کر رہا ہے۔ جس کے تحت صدر کو نفسیاتی طور پر بیمار ثابت کر کے عہدے سے ہٹایا جائے گا اور 24 گھنٹوں میں نائب صدر مائیک پینس کو ذمہ داریاں سونپی جائیں گی۔
یاد رہے کہ اس سے قبل دسمبر 2019 میں بھی ڈیموکریٹ جماعت صدر ٹرمپ کو یوکرین کے صدر سے ساز باز کے الزام پر کانگریس میں مواخذے سے گزار چکی ہے، جسے سینٹ نے مسترد کر دیا تھا۔
صدارت کے آخری ماہ میں ایک بار پھر صدارتی مواخذے کی تحریک کے مقاصد پر امریکی سیاسی حلقوں میں چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں، جس پرعمومی رائے میں صدر ٹرمپ کو دباؤ میں لانا اور سیاسی انتقام کا نشانہ بنانا سمجھا جا رہا ہے۔
جبکہ لبرل ٹیکنالوجی کمپنیوں کی جانب سے صدر ٹرمپ کی آواز دبانے کے اقدام پر بھی دنیا بھر میں آزادی رائے اور امریکی اقدار پر نئی بحث چھڑ گئی ہے، یاد رہے کہ 6 ابلاغی ٹیکنالوجی کمپنیوں نے صدر ٹرمپ کے کھاتے معطل کر دیے ہیں۔ جس پر روایت پسندوں کے ساتھ ساتھ لبرل حلقوں میں بھی تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ جرمنی کی چانسلر انجیلا میرکل نے بھی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے اقدام کو ایک بڑا مسئلہ گردانتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے آزادی رائے کے بنیادی حق کو نقصان پہنچا ہے۔