امریکہ کے نئے صدر جو بائیڈن نے صدارت کے عہدے کا حلف اٹھا لیا ہے۔ کیپیٹل ہل پو ہوئی تقریب کو لوہے کی خصوصی حصار سے بند کر دیا گیا تھا اور موقع پر 25 ہزار سے زائد فوجی اہلکار تعینات تھے، اطلاعات کے مطابق ڈیموکریٹ جماعت کے متعدد سیاستدانوں نے حفاظتی جیکٹیں زیب تن کر رکھی تھیں۔
یاد رہے کہ امریکی دارالحکومت میں اتنی بڑی تعداد میں فوجی اہلکاروں کو 1865 کی خانہ جنگی کے بعد پہلی بار دیکھا گیا۔
خصوصی حفاظت کا انتظام 6 جنوری کو کیپیٹل ہل پرہوئے عوامی دھاوے کے باعث کیا گیا تھا،، حساس اداروں کو بھی اطلاعت تھیں کہ عوام کا جتھہ تقریب پر حملہ کر سکتا ہے اور ملک بھر سے کئی گروہ واشنگٹن میں جمع تھے جس کے باعث امریکی دارالحکومت چھاؤنی میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ 2017 میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری کی تقریب میں انتیفا نامی تنظیم نے احتجاج کے دوران کئی کریانے کی دوکانوں کو لوٹ کیا تھا، ایک مسلم تارک وطن کی گاڑی کو آگ لگا دی تھی اور صدر ٹرمپ کے حمائتیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ اس دوران 6 پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے تھے۔
تقریب کے دوران شہری انتظامیہ نے روائیتی سیاسی اجتماعات پر بھی پابندی لگا رکھی تھی، یہاں تک کہ جوبائیڈن کے حق میں جلوس نکالنے کی اجازت نہ دی گئی، جس کے لیے جواز کے طور پر کووڈ19 کا جواز رکھا گیا۔
اس کے علاوہ شہری انتظامیہ اور دیگر اہم عہدوں سے صدر ٹرمپ کے ممکنہ حمائتیوں کو چن چن کر ہٹایا گیا جنہیں واشنگٹن کے ناظم اعلیٰ مریل باؤسر بائیڈن کے مخلاف دہشتگرد قرار دیتے ہیں۔ ناظم اعلیٰ نے شہر بھر میں بھاری اسلحے سے لیس فوجی اہلکار تعینات کرنے پر بھی زور دیا تاہم فوج کے سربراہ نے اسے ماننے سے صاف انکار کر دیا، اور کہا کہ عوامی اجتماعات پر جنگی اسلحے کی نمائش نہیں کی جا سکتی۔
واشنگٹن کو چھاؤنی میں بدلنے پر بہت سے غیرجانبدار تجزیہ کاروں نے بھی ناراضگی کا اظہار کیا، لوگوں کا کہنا تھا کہ خوف کو پھیلانے کی یہ کوشش برے اثرات چھوڑے گی۔ ایک شہری نے ڈیموکریٹ انتظامیہ کو ڈرامے باز قرار دیتے ہوئے کہا کہ شہر میں کوئی مظاہرہ تک نہیں اور انہوں نے شہر کو جیل بنا کر رکھا ہے۔
شہریوں کا کہنا ہے کہ ڈیموکریٹ شہریوں کو اسلحہ اور حفاظتی جیکٹیں خریدنے سے روکتے ہیں اور خود ٹیکس کے پیسوں سے حفاظتی جیکٹیں پہن کر ہمارا منہ چرا رہے ہیں۔