رشیا ٹوڈے نے معروف امریکی مفکر اور ناقد نوم چومسکی کا مکمل انٹرویو نشر کر دیا ہے۔ روسی نشریاتی ادارے سے گفتگو میں چومسکی کا کہنا تھا کہ اس وقت امریکی معاشرے میں حقیقت سے نظریں چُرانے کا رویہ اپنے عروج پر ہے، لبرل اشرافیہ بشمول گروہ کے نظریاتی رہنما خیالی دنیا میں رہ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا میں دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن امریکی لبرل یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ امریکہ ایک دہشت گرد ریاست ہے، انکا رویہ بالکل ایسا ہے جیسے روایت پسند ریپبلک جماعت انتخابات میں صدر ٹرمپ کی شکست کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔
ڈاکٹر چومسکی کا کہنا ہے کہ امریکہ شروع سے ہی ایک دہشت گرد ریاست رہی ہے، اس کے خلاف اٹھنے والی مزاحمت کو کچلنے کا آغاز صدر ریگن نے وسط امریکی اور جنوبی افریقہ سے کیا تھا، بلکہ یہ صدر ریگن کی خارجہ پالیسی تھی۔ 2008 تک نیلسن منڈیلا امریکہ کے لیے دہشت گرد تھے، یہاں تک کہ متعصب حکومت ناکام ہو گئی۔ عالمی عدالت انصاف نے ناکاراگوا پر امریکی جنگ کے خلاف فیصلہ دیا تو امریکی اخباروں نے عدالت کے خلاف تنقید شروع کر دی۔
گفتگو میں امریکی پروفیسر کا کہنا تھا امریکہ دہشت گردی کی اپنی بیان کردہ تعریف کے مطابق بھی ایک دہشت گرد ریاست ہے، یہاں کے معروف لبرل اخبارات، نیو یارک ٹائئمز عالمی عدالت کے فیصلوں کو مسترد کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ عدالت ایک مقبوضہ ادارہ ہے، لیکن یہ نہیں بتاتا کہ اس پر کس نے قبضہ کر رکھا ہے؟ جبکہ حقیقت میں عدالت وک صرف اس لیے بدنام کیا جاتا ہے کیونکہ یہ امریکی ایماء کے خلاف فیصلہ کرنے کی جرات کرتی ہے۔
اس کے علاوہ کیوبا جیسا چھوٹا سا ملک بھی امریکی عتاب کا شکار ہوتا رہتا ہے۔ چھوٹے سے ملک کو اکثر امریکی بندشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہاں تک کہ مقامی منتخب حکومتوں کے خلاف بغاوتیں ابھاری جاتی ہیں۔ کیوبا میں سویت میزائلوں کی تنصیب اور پوری دنیا کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کا واقعہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔
انٹرویو میں چومسکی کا مزید کہنا تھا کہ 6 جنوری کو کیپیٹل ہل پر حملہ امریکی لبرل اشرافیہ کے لیے بڑی تنبیہ تھا، انہیں سمجھنا ہو گا کہ یہ ہجوم اچانک نہیں آیا اور نہ ہی باہر سے تھا، امریکی نظام میں مسائل سے یہ لوگ مکمل طور پر ناواقف ہیں، معاشرہ بری طرح سے تقسیم ہے، بلکہ بیمار ہے، ریپبلک جماعت کے حامی شدید غصے میں ہیں، لیکن دوسرے فریق کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ ملک میں سماجی و سیاسی صورتحال دن بدن بگڑ رہی ہے، برنی سینڈر جیسے سیاستدانوں کو شدت پسند قرار دے کر راستے سے ہٹایا جاتا ہے، اور یوں معاشرے میں تقسیم کو مزید گہرا کیا جارہا ہے۔ پروفیسر چومسکی کا کہنا تھا کہ امریکی دائیں بازو والے سمجھتے ہیں کہ ریاستی صحت کا نظام اور مفت اعلیٰ تعلیم کسی بُرائی کا نام ہے۔ جبکہ متعدد یورپی مغربی ممالک ان سہولیات کو ریاستی ذمہ داری مانتے ہوئے مساوی سطح پر فراہم کر رہے ہیں، لیکن اگر امریکی اس کا مطالبہ کریں تو انہیں جاہل قرار دیا جاتا ہے۔