برما/میانمار کے مختلف شہروں میں ہزاروں افراد نے فوجی بغاوت کے خلاف مظاہرہ کیا ہے۔ بروز اتوار ہزاروں کی تعداد میں شہری سڑکوں پر نکل آئے اور جمہوری حکومت کو ختم کرنے والے فوجی سربراہ مِن آؤنگ ہلینگ کے خلاف مظاہرہ کیا۔ مقامی میڈیا کے مطابق پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں کچھ شہری زخمی بھی ہوئے ہیں جبکہ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ بھی کی ہے۔
یاد رہے کہ شروع ہونے والے مظاہروں کا شمار برما کی تاریخ کے بڑے مظاہروں میں کیا جا رہا ہے۔ اس سے قبل 2007 میں بھی اس نوعیت کے بڑے مظاہرے دیکھے گئے تھے۔
سب سے بڑا مظاہرہ سرحدی شہر مایاودی میں ہوا۔ جہاں مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس کو طاقت کا استعمال بھی کرنا پڑا۔ اس کے علاوہ رنگون میں ہونے والے مظاہرے بھی خطرناک صورتحال اختیار کر رہے ہیں۔
مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ باغی فوج فوری بیرکوں میں واپس جائے اور منتخب وزیراعظم آنگ سان سوچی کو بحال کیا جائے۔ مظاہرین دیگر سیاست دانوں کے تحفظ کے لیے بھی پریشان ہیں اور فوج پر انکے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے عالمی سطح پر بھی دباؤ بڑھ رہا ہے۔
مظاہرین خالی دھاتی برتنوں کی آواز پیدا کر کے احتجاج کر رہے ہیں جو مقامی توہم پرست روایت میں بُرائی کی قوتوں کو دور بھگانے کے لیے معروف طریقہ ہے۔
برما کی مظبوط فوج نے تاحال مظاہرین کے خلاف قوت استعمال نہیں کی اور نہ ہی کسی قسم کا ردعمل دیا ہے تاہم سماجی میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ پر بندش لگا دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ لوگوں کو منظم کرنے والے ممکنہ سماجی کارکنوں پر بھی کڑی نظر رکھی جا رہی ہے۔
فوج نے تاحال کتنے سیاست دانوں اور کارکنوں کو گرفتار کیا ہے، اس حوالے سے کوئی مصدقہ تعداد سامنے نہیں آئی۔ تاہم آسٹریلیا نے برما میں بطور معاشی مشیر کام کرنے والے ایک شہری کے لاپتہ ہونے کی تصدیق کی ہے۔
یاد رہے کہ بغاوت کے بعد فوجی سربراہ نے ملک میں ایک سال کے لیے ہنگامی حالات نافذ کر دیے ہیں۔ فوج کا ماننا ہے کہ آن سان سوچی نے دھاندلی کے ذریعے انتخابات جیتے۔ واضح رہے کہ آنگ سان سوچی ملک کی مقبول ترین سیاسی رہنما ہیں تاہم گزشتہ کچھ سالوں میں مسلمانوں کی نسل کشی پر خاموشی کے باعث انکی شہرت میں عالمی سطح کے علاوہ مقامی سطح پہ بھی کمی ہوئی ہے۔
دنیا بھر سے فوجی بغاوت کے خلاف مذمت کے بیانات سامنے آرہے ہیں جبکہ اقوام متحدہ نے فوری جمہوری حکومت کی بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔