ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے عالمی جوہری توانائی ایجنسی سے تعاون ختم کرنے کا عندیا دیا ہے، میڈیا سے گفتگو میں ایرانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ اگر امریکہ اور یورپ نے جوہری معاہدے پر جلد واپسی نہ کی تو ایران جوہری توانائی کی ایجنسی سے تعاون بالکل ختم کر دے گا۔
جواد ظریف کا مزید کہنا تھا کہ واشنگٹن میں نئی انتظامیہ کے آنے سے امریکہ کے پاس موقع ہے کہ وہ نئی راہیں تلاش کرے، ورنہ ایران کی اب تک کھلی کھڑکی بند ہو جائے گی اور پھر ایران اپنے مفاد میں فیصلے لے گا، ایسے حالات میں ایران بحق ہو گا کہ جوہری معاہدے میں قبول کی گئی تمام شرائط سے بھی پیچھے ہٹ جائے۔
یاد رہے کہ ایران نے مالی فوائد لے کر 2015 میں امریکہ کے ساتھ معاہدے کے تحت اپنا جوہری منصوبہ بند کر دیا تھا تاہم صدر ٹرمپ کی جانب سے ایران کے شرائط پر پورا نہ اترنے پر امریکہ جوہری معاہدے سے دستبردار ہو گیا تھا۔ معاہدے پر واپسی کے لیے اب ایران دوبارہ زور لگا رہا ہے تاہم امریکہ کی جانب سے مثبت جواب سامنے نہیں آیا۔ جس پر ایران مغربی ممالک کو نئی راہیں دیکھنے اور جوہری توانائی ایجنسی سے تعاون نہ کرنے کی دھمکی دے رہا ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ امریکہ کی نئی انتظامیہ کو سابق صدر کے انجام سے سبق سیکھنا چاہیے اور وہی راستہ اختیار نہیں کرنا چاہیے جس سے ناکامی انکا مقدر نہ بنے۔
جواد ظریف کا کہنا ہے کہ ایران کوئی نئی شرط نہیں مانے گا، مغربی طاقتیں 21 فروری تک فیصلہ کریں، اگر ایران پر سے معاشی پابندیاں نہ اٹھائی گئیں تو ایران جوہری توانائی ایجنسی کے نمائندگان کو معائنے کی اجازت نہیں دے گا۔
یاد رہے کہ ایران نے جنوری میں یورینیم کی افزودگی 20 فیصد تک لے جانے کے لیے کام شروع کر دیا تھا، جبکہ 2015 میں معاہدے کے وقت ایران کی افزودگی کی صلاحیت صرف 3 اعشاریہ 6 فیصد تھی۔
دوسری طرف امریکی انتظامیہ نے ایرانی مطالبات پر تاحال کوئی جواب نہیں دیا ہے، تاہم وزیر خارجہ انتوتی بلنکن نے ایران کے یورینیم کی افزودگی بڑھانے کے اعلان پر تحفظات کا اظہار ضرور کیا ہے۔