امریکہ میں فائزر کمپنی کی کورونا ویکسین لگنے سے 36 افراد کے خون میں نایاب بیماریاں پیدا ہو گئی ہیں، ویکسین لگوانے کے بعد افراد کا مدافعتی نظام ٹھیک سے کام نہیں کر رہا اور انکے خون کے خلیے مسلسل مر رہے ہیں۔ پیدا ہونے والی خون کی بیماری سے اب تک ایک شخص کے مرنے کی بھی اطلاعات ہیں۔
اطلاعات کے مطابق 56 سالہ طبی ڈاکٹر گراگری مشعل نے دو ہفتے قبل ویکسین لگوائی اور اچانک انہیں تھرمبوسائٹوفینیا نامی نایاب بیماری ہو گئی۔ دو ہفتے کے اندر انکی دماغ کی شریانیں بند ہونے سے ڈاکٹر کی موت واقع ہو گئی تھی۔
اس کے علاوہ ایک مریضہ کے عضو خاص سے خون کے بلا تعطل بہاؤ کے باعث اسکی موت ہو گئی، جبکہ ایک کے مسوڑوں سے خون کے زیادہ بہاؤ نے اسکی جان لے لی۔
امریکہ میں گزشتہ ماہ ان کے علاوہ بھی 36 افراد میں فائزر اور موڈرنا ویکسین لگوانے کے بعد نایاب خونی بیماریاں پیدا ہونے کی اطلاعات ہیں۔
امریکہ میں اس وقت مدافعتی تھرمبوسائٹوفینیا سے متاثر افراد کی تعداد 50 ہزار بتائی جا رہی ہے۔ بیماری میں مبتلا انسان کا اپنا مدافعتی نظام ہی خون کے خلیوں کو مارنا شروع کردیتا ہے، جس سے خون جمنا شروع ہو جاتا ہے اور نالیاں بند ہونے سے انسان کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ بیماری کی بظاہر علامات میں جلد پر خارش نما داغ بننا شروع ہو جاتے ہیں۔
طبی عملے کا کہنا ہے کہ اموات کی وجہ ویکسین کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا، ان کے درمیان کوئی تعلق ممکن ہے لیکن ویکسین خود موت کی وجہ نہیں۔
یاد رہے کہ کورونا ویکسین روائیتی ویکسین سے مختلف ہیں۔ روائیتی ویکسین میں اسی بیماری کے کمزور جراثیموں کو بیماری پھیلانے والے وائرس کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے لیکن فائزر اور موڈرنا کی تیار کردہ کورونا ویکسین آر این اے ویکسین ہیں، جو خون میں داخل ہو کر انسان کے اپنے ڈی این اے کو بیماری کے خلاف اینٹی باڈی بنانے کا طریقہ بتاتی ہیں۔
محققین کا خیال ہے کہ اس طریقہ علاج سے انسانی جسم میں خودکار مدافعتی ردعمل پیدا ہو سکتا ہے، جبکہ کچھ کے خیال میں اس سے جسم میں مزید مظبوط مدافعتی نظام پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔
کچھ محققین کی رائے میں ویکسین کے ردعمل میں پیدا ہونے والی نایاب خون کی بیماریوں کی وجہ ان افراد کے زیر استعمال دیگر ادویات ہو سکتی ہیں، جبکہ خود کووڈ-19 وائرس بھی مسائل کی وجہ ہو سکتا ہے۔
ویکسین سے متعلق سامنے آنے والے مسائل پر مزید تحقیق شروع کر دی گئی ہے، امریکی ڈاکٹر بضد ہیں کہ ویکسین محفوظ ہے اور ردعمل میں اب تک سامنے آنے والے مسائل، خود کورونا سے کم خطرناک ہیں۔