اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ میں سامنے آیا ہے کہ افغان امن عمل شروع ہونے سے ملک میں عوامی ہلاکتوں میں نمایاں کمی آئی ہے، تاہم رپورٹ میں مایوسی کا اظہار کیا گیا ہے کہ عوامی ہلاکتوں کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔ عالمی تنظیم کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغان شہریوں پر مشکلات اب بھی ویسے ہی ہیں جیسے پہلے تھیں، عام شہریوں کے لیے دنیا کا سب سے خطرناک ملک آج بھی افغانستان ہے۔
رپورٹ کے اعدادوشمار کے مطابق 2020 میں 8820 افغان شہری مارے گئے، جو پچھلے سال کی نسبت 15 فیصد کم تھے۔ رپورٹ کی تفصیل میں مزید سامنے آیا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر، تقریباً 45 فیصد ہلاکتیں سال کے آخری حصے میں ہوئیں۔ یاد رہے کہ اس دوران امریکہ میں انتخابی دنگل اپنے عروج پر تھا یا صدر بائیڈن انتخابات جیت چکے تھے۔
رپورٹ پر تبصرے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ ہلاکتیں روکنے میں ناکامی کی ایک بڑی وجہ کرزئی انتظامیہ اور طالبان کا جنگ بندی کے لیے متفق نہ ہونا بھی ہے، تاہم بات چیت کے جاری رہنے سے بھی ماہرین پرامید ہیں کہ مستقبل میں بین الافغان معاہدے کی صورت میں امن عمل کامیاب ہو سکتا ہے۔
واضح رہے کہ طالبان نے اقوام متحدہ کی رپورٹ کو مسترد کیا ہے، طالبان کا کہنا ہے کہ اس کے اعدادوشمار درست نہیں، نہ یہ ایک ایسی مفصل رپورٹ ہے جس پر انحصار کرتے ہوئے مستقبل کے فیصلے کیے جا سکیں۔
یاد رہے کہ افغان امن عمل کا آغاز سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ایک بڑی کامیابی مانا جاتا ہے، ج سکے تحت 20 سال بعد امریکہ اور طالبان میں فروری 2020 میں جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا تھا، تاہم کرزئی انتظامیہ نے بین الافغان بات چیت شروع کرنے میں 7 ماہ ضائع کر دیے۔ بالآخر امریکی دباؤ پر ستمبر 2020 میں دونوں افغان فریق دوحہ میں بیٹھے اور بات چیت کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔