برطانیہ میں گزشتہ سال 1000 بے گھر افراد کی سڑک پر موت ہو گئی تھی۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق بے گھر افراد کی شرح موت میں ایک سال میں 37 فیصد اضافہ ہوا، جس کی بظاہر وجہ کورونا وباء رہی تاہم سماجی حلقوں کا کہنا ہے کہ دراصل وباء کے دوران زندگی کی بنیادی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے یہ افراد حالات کا مقابلہ نہ کر سکے۔ شائع رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2019 میں برطانیہ کی تمام 4 اقوام میں مجموعی طور پر 710 بے گھر افراد کی موت واقع ہوئی تھی جبکہ 2020 میں یہ تعداد بڑھ کر 976 سے بھی زیادہ ہو گئی۔
حکومت نے اپنے دفاع میں کہا ہے کہ وباء کے دوران 15000 سے زائد بے گھر افراد کو ہاسٹلوں میں رہائش دی گئی، اور بے گھر افراد کی شرح موت میں اضافے کی وجہ رہائش کی سہولت سے زیادہ انکا رہن سہن تھا، حکومتی جواز ہے کہ بے گھر افراد کی شرح موت میں اضافے کی وجہ شراب نوشی اور دیگر نشہ آور ادویات کا بے جا استعمال ہے، جبکہ 15 فیصد نے خود اپنی زندگی خوش کشی سے ختم کی۔
برطانوی سماجی حلقوں نے حکومتی وضاحتوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں ہر 9 گھنٹے میں ایک بے گھر کی موت ہو رہی ہے۔ سماجی مہم جن میں ماہرین نفسیات، صحافی اور فنکار بھی شامل ہیں بے گھر افراد کی اموات پر جامعہ تحقیق کا مطالبہ کر رہی ہیں، انکا کہنا ہے کہ ضرورت مند شہریوں کی زندگی محفوظ بنانے کے لیے حکمت عملی مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ سماجی تنظیموں کے مطابق برطانیہ میں سماجی تحفظ کے لیے دس لاکھ سے زائد افراد نے درخواستیں دے رکھی ہیں، جبکہ حکومتی اعدادوشمار کے مطابق اس وقت کم از کم 3 لاکھ شہری سڑکوں پر سورہے ہیں، اور اس تعداد میں یومیہ اضافہ ہو رہا ہے۔
یاد رہے کہ سماجی تحفظ کی مد میں برطانوی حکومت مقامی انتظامیہ کو پچھلے 10 سالوں میں 22 ارب ڈالر مہیا کرچکی ہے لیکن وباء کے باعث اس امداد کو آدھا کر دیا گیا ہے۔ تاہم اب سماجی حلقوں کا دباؤ بڑھنے پر حکومت نے رواں سال 3300 گھر مہیا کرنے کا اعلان کیا ہے، اس کے علاوہ سالانہ امداد میں اضافہ کرتے ہوئے 1 ارب ڈالر کر دی ہے۔