فرانسیسی صدر ایمینؤل میخرون نے الجیریا کی آزادی کی تحریک کے اہم سیاسی رہنما علی بؤمندجیل پر تشدد اور انکے قتل کا اعتراف کر لیا ہے۔ یورپی ملک کے صدر کا اعتراف بؤمندجیل کی تیسری نسل سے فرانس میں ملاقات میں سامنے آیا ہے۔
علی بؤمندجیل پیشے سے وکیل اور تحریک آزادی کے اہم رہنما تھے، جنہیں فرانسیسی نوآبادیاتی قوتوں نے 1957 میں الجیریا کی تحریک آزادی کے دوران گرفتار کیا تھا، انکی شہادت دوران حراست شدید تشدد کے باعث ہوئی تھی۔
سیکولر یورپی ملک کے صدر کی جانب سے “فرانس کے نام سے شروع” اعتراف نامہ بروز منگل بؤمندجیل کے ورثہ کو دیا گیا۔ جس میں فرانسیسی حکومت کے مطابق تحریک آزادی کے ہیرو کے ساتھ رکھے نارواں سلوک کو ہو بہو بیان کر دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ 60 سال تک فرانسیسی حکومت معاملے کو خودکشی کہتی رہی ہے۔
فرانسیسی صدارتی محل سے جاری اعتراف نامے میں کہا گیا ہے کہ بؤمندجیل کوعلیحدگی میں رکھا گیا تھا، جہاں شدید تشدد کے باعث 23 مارچ 1957 کو الجیریائی ہیرو کی موت ہو گئی تھی۔
بؤمندجیل کے ورثہ کی جانب سے تاحال کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے تاہم گزشتہ ماہ ایک تقریب میں خطاب سے بؤمندجیل کی پوتی فضیلہ بؤمندجیل نے فرانسیسی رویے پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ لوگ ہمیشہ خطرناک جھوٹ بولتے ہیں۔
یاد رہے کہ اس سے قبل الجیریا میں فرانسیسی جاسوس ایجنسی کے سربراہ پاؤل اسارس نے بھی اس چیز کا اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے بؤمندجیل کو مارنے کا حکم دیا تھا اور انہوں نے ہی حکومت کو اعتراف سے منع کیا تھا، تاہم اس وقت بھی فرانسیسی حکومت نے اسے ماننے سے انکار کرتے ہوئے اپنے ہی اہلکار کی نفی کر دی تھی۔
فرانسیسی صدر کی جانب سے اعترافی بیان انکی طرف سے قائم کردہ تحقیقاتی کمیشن کے قیام کے بعد سامنے آیا ہے جسے فرانسیسی کالونیوں میں طاقت کے استعمال اور جبر کی تحقیقات کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ کمیشن سے متعلق فرانسیسی حکومت کا مؤقف ہے کہ اس سے ماضی میں ہونے والے ظلم اور جبر کی تردید کرنے والی روایت ختم کونے میں مدد ملے گی۔
تاہم فرانسیسی صدر نے ماضی کے تمام مظالم پر معافی مانگنے یا کسی قسم کے معاوضے کی ادائیگی کی خبروں کی تردید کی ہے۔ صدر میخرون کا کہنا ہے کہ وہ حال میں جینا چاہتے ہیں، اور الجیریا کی تحریک آزادی (1954- 1962) کی ایسی تمام علامتوں کو ختم کوتے ہوئے مستقبل میں مل کر چلنے کی تحریک چلانے کا ارادہ رکھتے ہیں، صدر میخرون کا کہنا ہے کہ ماضی میں دونوں فریقین سخت گیر رہے ہیں۔