چین نے دنیا کے 4 براعظموں کے 70 ممالک کو سڑکوں کے جال سے جوڑنے والے منصوبے ون بیلٹ ون روڈ کے بعد قطبین پر بھی سڑکوں کا جال بچھانے کے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔ 5 سالہ منصوبہ 2025 میں مکمل ہو گا جس میں شمالی اور جنوبی قطب پہ بھی سڑکوں کا جال بچھا کر براعظم انٹارکٹکا کو نئے دور کی شاہرائے ریشم میں شامل کیا جائے گا۔
بروز جمعہ سامنے آنے والے منصوبے کے تحت چین شمالی قطب پر سرمایہ کاری کو بڑھائے گا اور جنوبی قطب پہ وسائل کے تحفظ اور مناسب استعمال کے لیے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے لیے سرمایہ کاری کرے گا۔
یاد رہے کہ چین نے براعظم انٹارکٹکا میں برف کاٹ کر سمندری راہداری بنانے کے منصوبے کا اعلان 2018 میں کیا تھا۔ چینی منصوبہ تھا کہ ایشیا اور یورپ کو شمال مشرقی راسطوں سے بھی جوڑا جائے تاکہ تجارتی راستوں میں وسعت کے ساتھ ساتھ کاروبار کے نئے مواقع پیدا ہوں۔ کچھ ماحولیاتی اداروں نے منصوبے پر تحفظات کا اظہار کیا تھا، جس پر چین کا مؤقف تھا کہ منصوبے سے گنجان آبادی والے علاقوں میں آلودگی میں کمی آئے گی اور قدرتی ماحول کے تحفظ میں مدد ملے گی۔
واضح رہے کہ براعظم انٹارکٹکا پہ زمینی علاقہ تقرہباً 80 لاکھ مربع میل ہے، جس پر قریبی ممالک یعنی روس، ڈنمارک، فن لینڈ، آئس لینڈ، ناروے، سویڈن، کینیڈا اور امریکہ دعوے دار ہیں۔ جبکہ بحر منجمند کا کل علاقہ ایک کروڑ 20 لاکھ مربع کلو میٹر ہے، جس پر ہمسایہ ممالک کے حقوق کے ساتھ ساتھ عالمی قوانین کے تحت تمام اقوام کو تجارت کا حق حاصل ہے۔
مغربی اقوام براعظم انٹارکٹکا پر اپنی اجارہ داری کا دعویٰ کرتی ہیں اور خطے میں چین کی بڑھتی سرمایہ کاری پر تحفظات کا اظہار بھی کرتی رہتی ہیں۔ تاہم چین کا مؤقف ہے کہ اگر امریکہ ہزاروں میل دور بحیرہ جنوبی چین میں مداخلت کر سکتا ہے تو چین کو بھی اس سے کئی گناء کم مسافت پر واقع غیر آباد براعظم انٹارکٹکا پر کام کرنے کا پورا حق ہے۔ خصوصاً جبکہ چین آرکٹک کونسل کی مستقل رکنیت کا امیدوار اور 2013 سے کونسل کا مبصر ہے۔
اس کے علاوہ روسی گیس کے منصوبے یمال میں چین کی سرمایہ کاری اور چین کے خطے میں مفادات بھی خطے میں اس کے اثرورسوخ کو بڑھانے کا باعث بن رہے ہیں۔ یاد رہے کہ چین خطے سے نکلنے والی روسی گیس کا بڑا خریدار ہے، جس کی مقدار 40 لاکھ ٹن سالانہ ہے۔
چین نے خطے پر نظر رکھنے کے لیے 2022 تک نیا مصنوعی سیارہ خلاء میں بھیجنے کا اعلان بھی کر رکھا ہے، جو نہ صرف بحری جہازوں اور تجارتی راہداری پر نظر رکھے گا بلکہ براعظم میں ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ بھی لے گا۔