Shadow
سرخیاں
پولینڈ: یوکرینی گندم کی درآمد پر کسانوں کا احتجاج، سرحد بند کر دیخود کشی کے لیے آن لائن سہولت، بین الاقوامی نیٹ ورک ملوث، صرف برطانیہ میں 130 افراد کی موت، چشم کشا انکشافاتپوپ فرانسس کی یک صنف سماج کے نظریہ پر سخت تنقید، دور جدید کا بدترین نظریہ قرار دے دیاصدر ایردوعان کا اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں رنگ برنگے بینروں پر اعتراض، ہم جنس پرستی سے مشابہہ قرار دے دیا، معاملہ سیکرٹری جنرل کے سامنے اٹھانے کا عندیامغرب روس کو شکست دینے کے خبط میں مبتلا ہے، یہ ان کے خود کے لیے بھی خطرناک ہے: جنرل اسمبلی اجلاس میں سرگئی لاوروو کا خطاباروناچل پردیش: 3 کھلاڑی چین اور ہندوستان کے مابین متنازعہ علاقے کی سیاست کا نشانہ بن گئے، ایشیائی کھیلوں کے مقابلے میں شامل نہ ہو سکےایشیا میں امن و استحکام کے لیے چین کا ایک اور بڑا قدم: شام کے ساتھ تذویراتی تعلقات کا اعلانامریکی تاریخ کی سب سے بڑی خفیہ و حساس دستاویزات کی چوری: انوکھے طریقے پر ادارے سر پکڑ کر بیٹھ گئےیورپی کمیشن صدر نے دوسری جنگ عظیم میں جاپان پر جوہری حملے کا ذمہ دار روس کو قرار دے دیااگر خطے میں کوئی بھی ملک جوہری قوت بنتا ہے تو سعودیہ بھی مجبور ہو گا کہ جوہری ہتھیار حاصل کرے: محمد بن سلمان

برطانیہ کا یونانی آثار قدیمہ واپس کرنے سے صاف انکار: امریکی دھمکی بھی کام نہ آئی

برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے یونان کی جانب سے آثار قدیمہ کے مجسمے واپس لینے کی امیدوں کو توڑتے ہوئے مجسمے واپس دینے سے انکار کر دیا ہے۔ پارتھینان/ایلگس مجسمے ایتھنز کے آثار قدیمہ ہیں، جنہیں 5ویں صدی قبل مسیح میں بنایا گیا تھا۔ مجسموں پر برطانیہ کا دعویٰ ہے کہ انہیں 19ویں صدی عیسوی میں برطانیہ نے باقائدہ قانونی طور پر حاصل کیا تھا، لہٰذا یونان کا اب ان پر کوئی حق نہیں ہے۔ تاہم یونان اس مؤقف سے متفق نہیں ہے اور مجمسموں کی حوالگی کے لیے ملکی قیادت اکثر برطانیہ پر دباؤ ڈالتی رہتی ہے۔

حال ہی میں یونانی نشریاتی ادارے سے گفتگو میں بورس جانسن نے ان تمام امیدوں کو توڑ دیا اور کہا کہ وہ سمجھ سکتے ہیں کہ یونانیوں میں ان آثار قدیمہ کے حوالے سے جذبات پائے جاتے ہیں، لیکن یاد رہنا چاہیے کہ مجسمے لندن عجائب گھر کی قانونی ملکیت ہیں، اور مجسموں کی ملکیت کے حوالے سے برطانوی مؤقف نیا نہیں ہے، حکومت اپنے مؤقف پر قائم ہے۔

واضح رہے کہ بریگزٹ معاہدے پر گفتگو کے دوران بھی یہ مجسمے اہم موضوع بنے رہے، یورپی نمائندگان مسلسل برطانیہ سے مجسموں کی یورپی اتحادی ملک کو واپسی کا مطالبہ کرتے رہے، تاہم برطانیہ نے معاملے کو یورپی نمائندگان سے لاتعلق کہتے ہوئے معاملے پر گفتگو سے ہی انکار کر دیا تھا۔

یاد رہے کہ برطانیہ نے یونانی مجسمے سلطنت عثمانیہ کے دور میں عثمانیوں سے لیے تھے، لیکن یونانیوں کا کہنا ہے کہ برطانیہ نے انہیں چُرایا تھا، جبکہ برطانوی دعویٰ ہے کہ اس نے مجسموں کو باقائدہ قانونی طریقے سے لیا تھا، اور مجسمے اب برطانیہ کی ملکیت ہیں۔

معاملہ اب بین الاقوامی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے، امریکہ نے بھی ستمبر 2020 میں مداخلت کرتے ہوئے برطانیہ کو دھمکی دی تھی کہ اگر برطانیہ نے یونان کو مجسمے واپس نہ کیے تو دونوں ممالک کے تعلقات پر اس کا بُرا اثر پڑے گا۔ صدر ٹرمپ کے دور میں 18 سے زائد ایوان نمائندگان نے برطانوی وزیراعظم کو خصوصی خط میں مجسموں کی واپسی کا کہا تھا۔

برطانوی انتظامیہ نے امریکی دھمکی کو بلیک میلنگ قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کر دیا تھا، تاہم دوسری طرف امریکہ نے بھی اب تک دھمکی کے مطابق کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔

دوست و احباب کو تجویز کریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

6 − 2 =

Contact Us