فلسطین پر قابض صیہونی انتظامیہ نے عرب دنیا میں اپنے دیرینہ اتحادی ملک اردن کا پانی بڑھانے سے انکار کر دیا ہے۔ قابض انتظامیہ کے سرغنہ نیتن یاہو نے اردن کی خشک سالی کے دوران پانی کی مقدار بڑھانے کی درخواست کو مسترد کیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق نیتن یاہو کے اردن کے بادشاہ عبداللہ دوم کے ساتھ پچھلے کچھ عرصے سے تعلقات اچھے ںہیں چل رہے، جس کے باعث قابض انتطامیہ کے سرغنہ نے یک طرفہ طور پر اردن کا پانی روک دیا ہے۔ صیہونی میڈیا کے مطابق حساس اداروں نے نیتن یاہو کو اردن کے ساتھ دیرینہ پانی کا معاہدہ توڑنے سے منع کیا تھا لیکن نیتن یاہو نے طاقت کے نشے میں نہ صرف معاہدہ توڑا بلکہ خشک سالی اور معاشی دشواریوں کے شکار عرب ملک کا پانی بھی روک دیا ہے۔ مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ پانی جیسے حساس مسئلے پر صیہونی انتظامیہ کا فیصلہ خطے کے امن کو شدید مسائل سے دوچار کر سکتا ہے۔
یاد رہے کہ قابض صیہونی انتظامیہ اور اردن کے مابین 1994 میں پانی کے بٹوارے پر معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت صیہونی انتظامیہ دریائے اردن کے پانی کا صرف طے شدہ حصہ اردن کو دیتا ہے، اور باقی خود استعمال کرتا ہے، البتہ معاہدے میں یہ شرط بھی موجود ہے کہ خشک سالی یا دیگر سنگین حالات کی صورت میں اردن مزید پانی کے لیے درخواست کر سکتا ہے اور صیہونی انتظامیہ اسے پورا کرے گی تاہم قابض انتظامیہ نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
صیہونی میڈیا کے مطابق اردن نے ایک ماہ قبل پانی کی مقدار بڑھانے کی درخواست کی تھی، جسے قابض صیہونی انتظامیہ زیر بحث ضرور لائی تاہم فیصلے کو مؤخر رکھا اور درخواست مسترد کرنے کا تاثر عام کر دیا۔ اردن نے باقائدہ فیصلہ سامنے آنے تک کسی قسم کا ردعمل نہیں دیا تھا البتہ اردنی ذرائع ابلاغ کے مطابق معاملے کو بین الاقوامی سطح پر اٹھانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پانی کا مسئلہ بڑی علاقائی کشیدگی کا باعث بن سکتا ہے، جبکہ اس سے بھی زیادہ پریشان کن معاملہ نیتن یاہو اور بادشاہ عبداللہ کا آپسی رابطہ نہ ہونا ہے، جو پچھلے تین سالوں سے بند ہے۔ ماہرین کے مطابق بداعتمادی کے اس ماحول میں کشیدگی کے مزید بڑھنے کا امکان ہے۔
دوسری طرف دیگر عرب ممالک حتیٰ کہ متحدہ عرب امارات نے بھی نئے تعلقات استوار ہونے کے باوجود نیتن یاہو کا دورہ امارات منسوخ کر دیا، جس کے باعث صیہونی سرغنہ کو ملک میں جاری انتخابی سرکس میں شدید ندامت کا سامنا کرنا پڑا۔
واضح رہے کہ اردن نے نیتن یاہو کے جہاز کے اردنی فضاء سے گزرنے پر بھی پابندی لگا رکھی ہے۔ جس کے جواب میں صیہونی انتظامیہ نے بھی اردنی جہازوں پر پابندی لگانے کی کوشش کی تاہم امن معاہدے کے تحت اس پر عملدرآمد نہ کر سکا۔
یوں کچھ عرصہ قبل اردن کے شہزادے حسین کے بیت المقدس کے دورے کے دوران بھی تعلقات میں کشیدگی پیدا ہو گئی تھی، شہزادہ حسین نے مقبوضہ سرزمین پر صیہونی فوجیوں پر اعتماد کے بجائے اپنے نجی سکیورٹی اہلکاروں کو ساتھ رکھنے پر ترجیح دی اور انہی کے ساتھ مسجد اقصیٰ اور دیگر مقامات کا دورہ کیا۔ جس پر صیہونی انتظامیہ نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔ نیتن یاہو نے اس واقع کے کچھ عرصہ بعد کہا تھا کہ اردن کو ہماری اس سے کئی گناء زیادہ ضرورت ہے، جتنی ہمیں اردن کی ہے، لہٰذا اردن کو تعلقات خراب کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
اطلاعات کے مطابق نیتن یاہو کے لیے کام کرنے والے کچھ صحافی اردن سے متعلق نیا بیانیہ تیار کر رہے ہیں، جس میں نئے عرب ممالک کے ساتھ تعلقات شروع ہونے پر اسکی اہمیت ختم ہونے اور اس خوف میں اردن کو تذبذب کا شکار قرار دیا جا رہا ہے۔ تاہم اسکی تردید خود صیہونی انتظامیہ کے عسکری حلقے کرتے نظر آرہے ہیں، ٹی وی شو میں یہ حلقے کہتے پائے گئے ہیں کہ اردن ہمسایہ ہونے کے ناطے ہمیشہ ہی اہم اتحادی رہے گا۔