Shadow
سرخیاں
پولینڈ: یوکرینی گندم کی درآمد پر کسانوں کا احتجاج، سرحد بند کر دیخود کشی کے لیے آن لائن سہولت، بین الاقوامی نیٹ ورک ملوث، صرف برطانیہ میں 130 افراد کی موت، چشم کشا انکشافاتپوپ فرانسس کی یک صنف سماج کے نظریہ پر سخت تنقید، دور جدید کا بدترین نظریہ قرار دے دیاصدر ایردوعان کا اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں رنگ برنگے بینروں پر اعتراض، ہم جنس پرستی سے مشابہہ قرار دے دیا، معاملہ سیکرٹری جنرل کے سامنے اٹھانے کا عندیامغرب روس کو شکست دینے کے خبط میں مبتلا ہے، یہ ان کے خود کے لیے بھی خطرناک ہے: جنرل اسمبلی اجلاس میں سرگئی لاوروو کا خطاباروناچل پردیش: 3 کھلاڑی چین اور ہندوستان کے مابین متنازعہ علاقے کی سیاست کا نشانہ بن گئے، ایشیائی کھیلوں کے مقابلے میں شامل نہ ہو سکےایشیا میں امن و استحکام کے لیے چین کا ایک اور بڑا قدم: شام کے ساتھ تذویراتی تعلقات کا اعلانامریکی تاریخ کی سب سے بڑی خفیہ و حساس دستاویزات کی چوری: انوکھے طریقے پر ادارے سر پکڑ کر بیٹھ گئےیورپی کمیشن صدر نے دوسری جنگ عظیم میں جاپان پر جوہری حملے کا ذمہ دار روس کو قرار دے دیااگر خطے میں کوئی بھی ملک جوہری قوت بنتا ہے تو سعودیہ بھی مجبور ہو گا کہ جوہری ہتھیار حاصل کرے: محمد بن سلمان

جملہ حقوق کے سب سے لمبے چلنے والے مقدمے میں گوگل کی آریکل کے مقابلے میں فتح: کمپیوٹر کوڈ کی چوری جملہ حقوق کے زمرے میں نہیں آتی، امریکی سپریم کورٹ

امریکی سپریم کورٹ نے جملہ حقوق کے ایک اہم مقدمے میں گوگل کے خلاف دخواست مسترد کر دی ہے۔ گوگل کے خلاف معروف ٹیکنالوجی کمپنی آریکل نے دعویٰ دائر کر رکھا تھا کہ گوگل نے اینڈرائڈ کی تیاری میں اسکے جاوا پروگرام کے 11 ہزار 330 فقروں کے کوڈ کو چوری کیا اور بلا اجازت استعمال کیا۔ آریکل نے گوگل پر 8 ارب ڈالر ہرجانے کا دعویٰ کیا تھا جسے اعلیٰ امریکی عدالت نے مسترد کر دیا ہے۔ 8 ججوں نے مقدمے کی سماعت کی جن میں سے 6 نے آریکل کی درخواست مسترد کردی جبکہ 2 نے آریکل کے حق میں فیصلہ دیا۔

واضح رہے کہ گوگل نے سماعت میں چوری سے انکار نہیں کیا تھا بلکہ کہا تھا کہ 2007 میں اینڈرائڈ سسٹم بناتے وقت ٹیکنالوجی کی صنعت میں یہ ایک عمومی رویہ تھا کہ کمپنیاں کوڈ اِدھر اُدھر سے اٹھا کر استعمال کرتی تھیں، اور اس دور میں کوڈ کے حوالے سے جملہ حقوق محفوظ جیسی کوئی چیز عمل میں نہیں تھی۔

فیصلے میں جسٹس سٹیفن بائر نے اپنی رائے دیتے ہوئے لکھا ہے کہ کیونکہ کوڈ سے عام بھلا ہوا اس لیے اسے عمومی جملہ حقوق کے قانون کے تحت نہیں دیکھا جا سکتا، گوگل کے حق میں فیصلہ دینے والے دیگر ججوں نے بھی اسی مؤقف کو اپناتے ہوئے کہا ہے کہ کمپیوٹر کوڈ کو دیگر جملہ حقوق کے تناظر میں نہیں دیکھا جا سکتا۔ آریکل کے کوڈ کو دیگر سافٹ ویئر ماہرین بھی جانتے تھے، اس لیے اسکے جملہ حقوق کے تحفظ کو دیگر علمی مواد کی ملکیت کے طور پر دیکھنا درست نہیں۔

واضح رہے کہ امریکی سپریم کورٹ نے فیصلہ دس سال بعد سنایا ہے اور یہ جملہ حقوق کے کسی مسئلے پر امریکی تاریخ کا سب سے لمبا چلنے والا مقدمہ تھا۔ مقدمے میں دیگر بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں آی بی ایم، مائیکروسافٹ نے گوگل کی حمایت جبکہ موشن پکچر ایسوسی ایشن اور ریکارڈنگ انڈسٹری ایسوسی ایشن نے آریکل کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا تھا۔

مقدمے کا فیصلہ آنے پر گوگل نے خوشی کا اظہار کیا ہے اور اسے سافٹ ویئر صنعت کی ترقی کے لیے اہم دن قرار دیا ہے، جبکہ آریکل نے اسے کچھ بڑی کمپنیوں کو مزید مظبوط کرنے اور مقابلے کو ختم کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔

مقدمے میں آریکل نے دیگر 37 ایپلیکیشنوں کے کوڈ چوری کرنے کا الزام بھی لگایا تھا جسکا گوگل نے یہ کہتے ہوئے دفاع کیا کہ کوڈ حروف تہجی ہوتے ہیں انکے حقوق کوئی بھی محفوظ نہیں کر سکتا۔

دوست و احباب کو تجویز کریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

four × 1 =

Contact Us