انٹرنیٹ پر 53 کروڑ 30 لاکھ سے زائد فیس بک صارفین کی نجی معلومات عیاں کر دی گئی ہیں۔ سماجی میڈیا کی بڑی کمپنی نے واقع کو دبانے کی پوری کوشش کی لیکن کچھ غیر لبرل ذرائع ابلاغ کے اداروں نے اتنی بڑی مقدار میں نجی معلومات کے عیاں ہونے پر بھرپور آواز اٹھائی ہے۔ بڑھتی عوامی تنقید پر فیس بک نے اپنی وضاحت میں کہا ہے کہ یہ سارا پرانا ڈیٹا تھا، لہٰذا صارفین کو زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
واضح رہے کہ نجی معلومات میں پورا نام، ادارا جاتی وابستگی، فون نمبر، ای میل اور دیگر حساس معلومات شامل ہوتی ہیں، جنہیں کبھی بھی نئی یا پرانی کے زمرے میں جانچا نہیں جا سکتا۔
فیس بک کے ڈیٹا لیک کی خبر بزنس انسائڈر نے شائع کی ہے، خبر کے مطابق ڈیٹے تک پہلے نجی طور پر کچھ افراد کو رسائی دی گئی اور پھر یہ ایک ہیکنگ ویب سائٹ پر سب کے لیے مفت دستیاب ہو گیا۔ اطلاعات کے مطابق ڈیٹے میں 106 ممالک کے شہریوں کی معلومات شامل ہیں، اس میں سے 3 کروڑ 20 لاکھ امریکی، 1 کروڑ 20 لاکھ برطانوی اور 60 لاکھ ہندوستانی شہریوں کی معلومات شامل ہیں۔
ڈیٹے میں صارفین کی ای میلوں، فون نمبروں اور تصاویر کے ساتھ درست نجی معلومات کے عیاں ہونے پر سائبر کرائم کے ماہرین کی جانب سے شدید غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ لیکن فیس بک کا کہنا ہے کہ صارفین کو زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، کیونکہ یہ پرانا ڈیٹا تھا۔ فیس بک ترجمان نے ٹویٹر پر اپنی وضاحت میں مزید کہا ہے کہ جس رستے سے ہیکروں نے ڈیٹا چوری کیا تھا، اسے 2017 میں ٹھیک کر دیا گیا تھا۔
سائبر سکیورٹی ماہر ایلن گیل کا کہنا ہے کہ صورتحال شاید اتنی غیر معمولی بھی نہیں جتنی فیس بک ظاہر کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس معلومات سے بیشتر صارفین کے لیے سنجیدہ مسائل پیدا کیے جا سکتے ہیں اور شہریوں کو ہراساں کیا جا سکتا ہے، سائبر مجرم صارفین کے فون ہیک کر سکتے ہیں اور سماجی ڈھانچے میں مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔
بزنس انسائڈر کے صحافی کا کہنا ہے کہ جنوری میں اسے ایک شخص کی جانب سے کروڑوں صارفین کے فون نمبر کی بولی لینے کی اطلاع ملی، لیکن اسے نہیں معلوم تھا کہ یہ جلد مفت سب کے لیے دستیاب ہوں گے۔
سائبر ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ فیس بک کو صارفین کی معلومات چوری ہوتے ہی آگاہ کرنا چاہیے تھا اور اسے محفوظ بنانے کے لیے آگاہی مہم چلانا چاہیے تھی، لیکن فیس بک نے اسے چھپایا اور اب پرانی معلومات کہہ کر جان چھڑانا چاہ رہی ہے۔ صارفین کو پورا حق ہے کہ وہ فیس بک سے اس حوالے سے سوال پوچھیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈیٹا لیک کی خبریں ایک معمول بنتی جا رہی ہیں، فیس بک اپنے اشتہاری فائدے کے لیے صارفین کے اعتماد کو بیچتی ہے یا محفوظ رکھنے میں مکمل طور پر ناکام دکھائی دے رہی ہے۔
یاد رہے کہ دسمبر 2018 میں فیس بک کو مجبور کیا گیا کہ ڈیٹا لیک پر معافی مانگے کہ کیوں ویب سائٹ سے ایک دوسری کمپنی کو70 لاکھ صارفین کی تصاویر تک رسائی رہی؟ یہ واقع بھی 2 کروڑ 90 لاکھ صارفین کی معلومات لیک ہونے کے صرف ایک ماہ بعد ہوا تھا۔
ایسے ہی مئی 2019 میں ایک ہندوستانی مارکیٹنگ کمپنی کے پاس سے 4 کروڑ 90 لاکھ انسٹاگرام صارفین کا ڈیٹالیک ہو گیا تھا، جبکہ اسی سال کے ستمبر میں 41 کروڑ 90 لاکھ صارفین کے فون نمبر اور پاسورڈ (منتر) ایک غیر محفوظ سرور پر شائع ہو گئے تھے۔ یاد رہے کہ انسٹاگرام بھی فیس بک کی ملکیت ہے۔