امریکی خفیہ دستاویزات میں سامنے آیا ہے کہ داعش کے موجودہ سربراہ ابو ابراہیم الھاشمی القریشی ماضی میں امریکی حراست میں رہ چکے ہیں اور انہیں اہم معلومات عیاں کرنے کے بدلے رہا کیا گیا تھا۔
ابوابراہیم اکتوبر 2019 میں ابوبکرالبغدادی کی شام میں امریکی حملے میں موت کے بعد داعش کے سربراہ بنے تھے، فی الحال روپوش رہنے والے ابوابراہیم کے بارے میں امریکی عسکری انتظامیہ خوب جانتی ہے۔
ابوبراہیم کا حقیقی نام عامر محمد سعید عبدالرحمٰن المؤلا ہے جسے عراق میں 2007 میں گرفتار کیا گیا۔ اُس وقت ابوابراہیم ایک درمیانے درجے کا رکن داعش تھا جو امریکی فوجیوں کے ہاتھوں لگ گیا۔ سامنے آنے والے خفیہ دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ ابوابراہیم معلومات مہیا کرنے میں امریکیوں کے ساتھ پورا تعاون کرتا تھا، خصوصاً تنظیم میں اپنے مدمقابل ارکان سے متعلق تفصیلی معلومات فراہم کرتا تھا۔ ایک خفیہ دستاویز کے مطابق ابوابراہیم نے ہی امریکیوں کو داعش کی سرنگوں کے جال کے حوالے سے معلومات فراہم کیں حتیٰ کہ داعش کے نائب سربراہ کے روپوش ہونے کی جگہ اور اسکے مخبروں کی معلومات بھی ابوابراہیم نے ہی امریکیو کو دی، دستاویز کے مطابق انہی معلومات کی بنیاد پر 2008 میں داعش کا نائب سربراہ مارا گیا۔
اس کے علاوہ ابوابراہیم نے متعدد خفیہ ٹھکانوں، ابلاغی مرکز اور مطلوب داعش ارکان کی شناخت میں بھی امریکہ کی مدد کی، ابوابراہیم تنظیم کے اہم ارکان کے پسندیدہ ڈھابے اور دیگر عمومی سرگرمیوں سے متعلق معلومات بھی فراہم کرتا تھا۔
دستاویزات سے ابوابراہیم کی امریکی قید سے رہا ہونے کی معلومات نہیں ملتی البتہ ایک دستاویز کے مطابق اس نے آخری معلومات جولائی 2008 میں تفتیش کے دوران فراہم کیں۔ امریکی تفتیشی افسر لکھتا ہے کہ ابوابراہیم کو اس سارے تعاون سے یقین تھا کہ امریکی اسے اچھا صلہ دیں گے۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس عراقی خفیہ ادارے نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے ابوابراہیم کو پکڑ لیا ہے لیکن بعد میں اس کی تردید کر دی گئی تھی۔