گزشتہ تین ماہ میں کولمبیا سے امریکہ میں والدین کے بغیر داخل ہونے والے بچوں کی تعداد میں حددرجہ اضافہ ہوا ہے، امریکی سرحدی پولیس کا کہنا ہے کہ صرف مارچ کے مہینے میں 19 ہزار بچے امریکہ میں داخل ہوئے یعنی یومیہ 633 سے زائد بن ماں باپ بچے امریکہ میں داخل ہوئے ہیں۔
واضح رہے کہ صدر جوبائیڈن سابق صدرٹرمپ کو؛ ان بچوں کو کیمپوں میں رکھنے پر سخت تنقید کا نشانہ بناتے تھے اور یہ مدعہ انکی انتخابی مہم کا اہم حصہ تھا، صدر بائیڈن ان کیمپوں کو جرمنی کے نازی کیمپوں سے تشبیہ دیتے تھے اور صدر ٹرمپ کو ظالم کا خطاب دیتے تھے۔ ڈیموکریٹ جماعت اسے نسلی تعصب سے شبیہ دیتے ہوئے سہولیات بہتر بنانے پر زور دیتے تھے اور خود منتخب ہوتے ہی ان بچوں کو قانونی دستاویزات دینے کا اعلان کرتے نظر آتے تھے۔ لیکن اب فتح تو درکنار خلف اٹھائے بھی 4 ماہ ہو گئے ہیں لیکن کوئی عملی قدم یا پالیسی سامنے نہیں آئی۔
مقامی پولیس کا مختلف ذرائع سے معلومات کی بنیاد پر دعویٰ ہے کہ آئندہ یہ تعداد 26000 تک پہنچ سکتی ہے۔ واضح رہے کہ مفلسی کے خوف میں ان بچوں کو والدین سرحد پر چھوڑ جاتے ہیں اور خود کولمبیا میں ہی رہ جاتے ہیں۔ سرحدی پولیس کے مطابق گزشتہ ماہ کولمبیا سے 1 لاکھ 72 ہزار افراد نے سرحد پار کرنے کی ناکام کوشش کی، اور کچھ نے بچوں کے مستقبل کے نام پر انہیں اکیلے امریکہ بھیجنے کا خوفناک فیصلہ کیا۔
بچوں کو ایک ہفتے سے ڈیڑھ ماہ تک سرحد پر قائم کیمپوں میں ہی رہنا پڑتا ہے اور اس دوران وزارت داخلہ بچوں کے مستقبل کا فیصلہ کرتی ہے کہ انہیں کس ریاست کے کس مرکز میں بھیجا جائے، اور یوں یہ بدقسمت بچے شاید ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے والدین سے بچھڑ جاتے ہیں اور امریکی نظام کا ایندھن بنتے ہیں۔
دوسری طرف امریکی مقامی سیاست کے لیے یہ صرف ایک طعنہ زنی کا مدعہ ہے۔ پہلے ڈیموکریٹ جملے کستے تھے اور اب ریپبلک جماعت کے حامی ڈیموکریٹ شہریوں کو طعنہ دیتے نہیں تھکتے کہ تمہیں اب کیوں معصوم بچوں پر بڑھتا ظلم نظر نہیں آتا؟
سرحدی انتظامیہ نے بچوں کی تعداد بڑھ جانے اور بُری حالت کے باعث فوری کیمپوں کی تعداد بڑھانے کی درخواست دی ہے۔ اس کے علاوہ کیمپوں میں بچوں سے جنسی زیادتی اور بیماری کی خبریں بھی روز اخبارات کی سرخیاں بن رہی ہیں۔