مصری وزیرخارجہ نے ترکی کی جانب سے تعلقات بحال کرنے اور بات چیت کی پیشکش کا خیر مقدم کیا ہے۔ مصری عہدے دار کا کہنا تھا کہ وہ بھی ترکی کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں اور انہیں اچھا لگا کہ ترکی نے بات چیت کی دعوت دی ہے۔
واضح رہے کہ ترکی اور مصر کے تعلقات صدر مرسی کو فوجی بغاوت میں اقتدار سے ہٹانے کے بعد سے خراب ہیں، ترکی ان چند ممالک میں سے ایک تھا جنہوں نے منتخب صدر مرسی کی حمایت میں کھل کر بات کی تھی اور آمر صدر الفتح السیسی کے ساتھ تعلقات کو استوار نہ کیا تھا۔
تاہم علاقائی اور عالمی سیاست میں بدلتی صورتحال کے باعث ترکی نے اپنی پالیسی کے ساتھ رجوع کیا اور کچھ عرصہ قبل چھوٹے پیمانے پر تعلقات کو بحال کیا۔ اب بات چیت کو شروع کرنے کی پیشکش پر مصری دفتر خارجہ نے ردعمل میں کہا ہے کہ مصر بھی ترکی کے ساتھ تعلقات کو اہمیت دیتا ہے، اور چاہتا ہے کہ بین الاقوامی تعلقات کے اصولوں کے عین مطابق تعلقات استوار ہوں، جن میں ایک دوسرے کے مفادات کو نقصان نہ پہنچایا جائے، تعلقات کی بحالی دونوں ممالک کے مفاد میں ہے۔
بروز ہفتہ ترک وزیر خارجہ میلاد چاوش اوعلو نے مصری وزیر خارجہ کو فون کیا اور رمضان کی مبارکباد دی۔ اس سے پہلے کچھ ہفتے قبل ترکی اور مصر نے دوبارہ سفارتی تعلقات بحال کیے ہیں، جو 2013 سے منقطع تھے۔ تعلقات کی خرابی کی اول وجہ منتخب صدر مرسی کے خلاف بغاوت تھی البتہ بعد میں علاقائی مسائل پر اختلافات بھی طوالت کا باعث بنے، جن میں لیبیا خانہ جنگی میں مخالف گروہوں کی حمایت، بحیرہ روم میں وسائل کی تلاش اور حق کے دعوے اور دشمن ممالک کی حمایت شامل تھے۔