روسی اور امریکی قیادت میں رابطہ ہوا ہے جس میں دونوں صدور، صدر ولادیمیر پوتن اور صدر جوبائیڈن نے یوکرین میں بڑھتی کشیدگی، عالمی سکیورٹی مسائل اور جوہری ہتھیاروں کے کنٹرول کی ضرورت پر بات چیت کی۔ امریکی میڈیا کے مطابق صدور نے کسی تیسرے ملک میں ملاقات پر بھی اتفاق کیا ہے۔
امریکہ کی جانب سے جاری باقائدہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک نے علاقائی اور عالمی معاملات پر تبادلہ خیال کیا، امریکی صدر جوبائیڈن نے روسی ہم منصب سے کریمیا میں بڑھتی عسکری سرگرمیوں اور یوکرین کی سرحد پر کشیدگی پر بھی تحفظات کا اظہار کیا۔
واضح رہے کہ رابطہ اس وقت ہوا ہے جب کہ یوکرین میں دونباس کے علاقے میں امریکی حمایت کے ساتھ یوکرینی فوج اور روسی حمایت یافتہ علیحدگی پسندوں کے درمیان جھڑپیں شدت اختیار کر گئی ہیں اور یوکرین نے روس کو براہ راست جنگ کا عندیا دیتے ہوئے امریکی مدد کے وعدے کا دعویٰ کیا ہے۔
بحیرہ اسود میں امریکی بحری بیڑے کے گشت نے بھی صورتحال کو مزید سنجیدہ کر دیا ہے جس کے ردعمل میں روس نے اپنی فوج کو تیار رہنے کا حکم دیا ہے اور مغربی سرحد پر عسکری سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں۔
روس کا کہنا ہے کہ امریکہ کو خطے میں مداخلت سے باز رہنا ہو گا، تاہم امریکہ اپنے اتحادیوں کے بہانے روس پر مسلسل دباؤ بڑھانے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ اس کے علاوہ انتخابات میں مداخلت کے الزام کا امریکی پراپیگندا بھی تعلقات میں کشیدگی کو بڑھانے کا باعث بن رہا ہے۔ روس نے گزشتہ ماہ اپنے سفیر کو مشاورت کے لیے طلب کیا تھا اور بائیڈن انتظامیہ کو تنبیہ کی تھی کہ روس کی آئندہ تعلقات کی پالیسی امریکی رویے کے مطابق ہو گی۔
علاقائی کشیدگی اور معاشی پابندیوں کے علاوہ صدر بائیڈن اور انکی انتظامیہ نے روسی قیادت کے خلاف لفاظی جنگ بھی شروع کر رکھی ہے۔ وہ کبھی صدر پوتن کو قاتل کہتے ہیں اور کبھی سبق سکھانے کی دھمکی دیتے ہیں۔
اس نوعیت کے تعلقات کے دوران دونوں صدور کا رابطہ خوش آئند قرا دیا جا رہا ہے۔ جس میں خود امریکی اعلامیے کے مطابق امریکہ نے تعلقات بہتر کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے اور ملاقات کی حامی بھی بھری ہے۔
اس سے پہلے دونوں جوہری اور روائیتی حریف ممالک کے صدور کے مابین 2018 میں ملاقات ہوئی تھی جسے صدرپوتن نے مثبت قرار دیا تھا تاہم امریکی لبرل میڈیا نے اسے منفی رنگ دے کر اسے صدر ٹرمپ کے خلاف انتخابی مہم میں خوب استعمال کیا تھا۔
روسی حلقوں کا کہنا ہے کہ ماسکو حکومت بائیڈن انتظامیہ سے بہت زیادہ پر امید نہیں، اور انہیں نہیں لگتا کہ بائیڈن کے ساتھ اہم مسائل پر نتیجہ خیز بات ہو سکتی ہے۔