Shadow
سرخیاں
پولینڈ: یوکرینی گندم کی درآمد پر کسانوں کا احتجاج، سرحد بند کر دیخود کشی کے لیے آن لائن سہولت، بین الاقوامی نیٹ ورک ملوث، صرف برطانیہ میں 130 افراد کی موت، چشم کشا انکشافاتپوپ فرانسس کی یک صنف سماج کے نظریہ پر سخت تنقید، دور جدید کا بدترین نظریہ قرار دے دیاصدر ایردوعان کا اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں رنگ برنگے بینروں پر اعتراض، ہم جنس پرستی سے مشابہہ قرار دے دیا، معاملہ سیکرٹری جنرل کے سامنے اٹھانے کا عندیامغرب روس کو شکست دینے کے خبط میں مبتلا ہے، یہ ان کے خود کے لیے بھی خطرناک ہے: جنرل اسمبلی اجلاس میں سرگئی لاوروو کا خطاباروناچل پردیش: 3 کھلاڑی چین اور ہندوستان کے مابین متنازعہ علاقے کی سیاست کا نشانہ بن گئے، ایشیائی کھیلوں کے مقابلے میں شامل نہ ہو سکےایشیا میں امن و استحکام کے لیے چین کا ایک اور بڑا قدم: شام کے ساتھ تذویراتی تعلقات کا اعلانامریکی تاریخ کی سب سے بڑی خفیہ و حساس دستاویزات کی چوری: انوکھے طریقے پر ادارے سر پکڑ کر بیٹھ گئےیورپی کمیشن صدر نے دوسری جنگ عظیم میں جاپان پر جوہری حملے کا ذمہ دار روس کو قرار دے دیااگر خطے میں کوئی بھی ملک جوہری قوت بنتا ہے تو سعودیہ بھی مجبور ہو گا کہ جوہری ہتھیار حاصل کرے: محمد بن سلمان

صدر بائیڈن کی پہلی جنگ عظیم کے دوران ترک افواج کے ہاتھوں آرمینیائی نسل کشی کی توثیق: نیٹو اتحادی ترکی نالاں، آرمینیائی قیادت کا خیر مقدم

امریکی صدر جوبائیڈن کی طرف سے 1915 میں ترک افواج کے ہاتھوں آرمینیوں کی نسل کشی کے متنازعہ الزام کو حقیقت تسلیم کرنے کا اقدام سامنے آیا ہے۔ اقدام سے صدر بائیڈن، رونلڈ ریگن کے بعد دوسرے امریکی صدر بن گئے ہیں جنہوں نے اپنے ایک اہم تذویراتی اتحادی کے ساتھ پہلے ہی سے تناؤ کا شکار تعلقات کو مزید خراب کر لیا ہے۔

صدر بائیڈن نے ہفتہ کے روز مبینہ نسل کشی کی یاد میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ ہم ہر سال اِس دن اُن آرمینیائی نسل کے افراد کو یاد کرتے ہیں جو عثمانی افواج کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ امریکی صدر کا مزید کہنا تھا کہ اس دن کو منانے کا مقصد اس طرح کے مظالم کو دوبارہ ہونے سے روکنے کے عزم کا ارادہ کرنا ہے۔

ترکی نے امریکی صدر کے بیان کی تردید و مذمت کی ہے۔ ردعمل میں صدر رجب طیب اردوعان  نے کہا ہے کہ آرمینیا کے مسئلے پر دور بیٹھے ممالک سیاست کررہے ہیں۔ جبکہ ترک وزیر خارجہ میلوت چاؤش اوعلو نے کہا ہے کہ ترکی امریکی صدر کے اقدام کو مکمل طور پر مسترد کرتا ہے، اقدام سے امریکہ کے ساتھ ہمارے باہمی اعتماد اور دوستی کو ٹھیس پہنچی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ 100 سال کے  بعد زخموں کو کریدنے کے بجائے مل کر خطے کے امن کو یقینی بنانے کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکی صدر کے بیان سے ملکوں میں دوری اور امن کی راہ میں رکاوٹ پیدا ہونے کے علاوہ اور کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔ 
یاد رہے کہ ترک افواج پر الزام لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے پہلی جنگ عظیم کے دوران ینگ ترک تحریک کے ذریعے 15 لاکھ آرمینیائی نسل افراد کا قتل عام کروایا تھا۔ ترک حکومت ایک صدی سے زیادہ عرصے سے نسل کشی کی تردید کرتی آرہی ہے، اور ان کے مطابق آرمینی باشندوں کو جمہوری قیادت نے دیگر اقوام کی طرح ایک پالیسی کے تحت دوسری جگہ منتقل کیا تھا، ان کا قتل عام نہیں کیا گیا تھا۔
ماضی میں سفارتی حساسیت کے پیش نظر، نیٹو اتحادی ہونے کے ناطے اور ترکی کی اسٹرٹیجک جغرافیائی سیاسی اہمیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے امریکی صدور مختلف حلقوں کے دباؤ کے باوجود اس مسئلے پر خاموش رہے ہیں، بلکہ سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے آرمینیا میں امریکی سفیر کو صرف اس لئے برطرف کردیا تھا کیونکہ انہوں نے ایک گفتگو میں آرمینیائی باشندوں کی نسل کشی کا حوالہ دیا تھا۔ لیکن ڈیموکریٹ صدر باراک اوباما کی طرف سے 2008 کی صدارتی مہم کے دوران اس حوالے سے ایک وعدہ ضرور سامنے آیا تھا، جسے متعدد غیر واضح وجوہات کے باعث پورا نہ کیا گیا۔ ان کے بعد پہلی بار ریپبلک صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے آرمینی اصطلاح “میڈس یگھرن” یعنی “عظیم جرم” کا استعمال کیا۔ جس پر ترک حلقوں کی جانب سے ناراضگی کا اظہار سامنے آیا۔
اب صدر بائیڈن کی طرف سے بھی اصطلاح کا استعمال کیا گیا ہے، انہوں نے کہا، کہ ہم میڈس یگھرن کے متاثرین کا احترام کرتے ہیں، وحشت کی اس تاریخ کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکے گا۔
دوسری جانب آرمینی وزیر اعظم نکول پشینین نے امریکی صدر کے اقدام کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ یہ سچائی اور تاریخی انصاف کے اعتراف کے راستے پر ایک طاقتور قدم ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس اقدام سے متاثرین کے پسماندگان کو “انمول مدد” فراہم ہوئی ہے، امریکہ کی طرف سے آرمینی نسل کشی کو تسلیم کرنا عالمی برادری کے لئے بھی اہم پیغام ہے، جو بین الاقوامی تعلقات میں انسانی حقوق اور اقدار کی حقیقی حیثیت کی تصدیق کرتا ہے۔
یاد رہے کہ آرمینیا کئی عشروں سے امریکی حکومت پر نسل کشی کو تسلیم کرنے کے لئے دباؤ ڈال رہا تھا، اس سے قبل روس نے 1995 میں نسل کشی کو باقائدہ تسلیم کیا تھا۔ اس کے علاوہ جرمنی اور فرانس سمیت کچھ یورپی ممالک بھی اسے تسلیم کر چکے ہیں۔ امریکی ایوان نمائندگان اور سینٹ میں 2019 میں نسل کشی کے اعتراف کے لئے قراردادیں پیش ہو چکی ہیں۔
بائیڈن انتظامیہ کے ایک اہلکار کی طرف سے بیان سامنے آیا ہے کہ ترکی نیٹو کا ایک اہم حلیف ہے، امریکہ ترکی کے ساتھ مضبوط تعلقات کا خواہاں ہے، صدر بائیڈن کا بیان متاثرین کو عزت دینا تھا نہ کہ الزام تراشی کرنا۔
تاہم اس سے امریکہ اور ترکی کے تعلقات  میں مزید دراڑ پیدا ہوئی ہے۔ تعلقات کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ صدر بائیڈن  نے اقتدار سنبھالنے کے تین ماہ بعد تک صدر اردوعان سے بات نہیں کی تھی، اور جب انہوں نے جمعہ کے روز اپنے ترک ہم منصب کو فون کیا تو نسل کشی کے بارے میں اپنے آئندہ بیان سے آگاہی کے لئے ہی کیا تھا۔ دونوں صدور نے جون میں نیٹو کے سربراہی اجلاس کے موقع پر ملاقات پر بھی اتفاق کیا ہے۔

دوست و احباب کو تجویز کریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

six − 5 =

Contact Us