میں ایک ڈاکٹر ہوں، لیکن میرا بیٹا بھی میرے لاکھ منع کرنے کے باوجود مجھ سے چوری دوستوں کے ساتھ ریستورانوں میں کھانے کھاتا ہے۔ میں اب اس چیز کو جان گیا ہوں کہ وہ میری بات نہیں سمجھ پا رہا، لیکن پھر بھی اپنی تسلی کے لیے اکثر نت نئے طریقوں سے اسے سمجھانے کی کوشش کرتا رہتا ہوں، اسے ڈانٹتا بھی ہوں اور بازار کے ناقص کھانوں کے مضر اثرات سے ڈراتا بھی رہتا ہوں، لیکن تاحال اسےمنع کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ بسا اوقات مجھے لگتا ہے کہ یہ انسانی فطرت میں ہے کہ اسے سبق کی دوہرائی مطلوب رہتی ہے، اس لیے کتاب ہدایت نازل ہونے کے باوجود اللہ نے ہر جمعہ انسان کو جمعے کے اجتماع کے لیے طلب کیا ہے۔
خیر، اپنے بیٹے کے حوالے سے پریشانی کے ساتھ ساتھ بسا اوقات اپنے ماضی میں بھی کھو جاتا ہوں، یاد کرتا ہوں کہ میں بھی اس کی عمر میں ایسے ہی دوستوں کے ساتھ بازاری کھانوں سے خوب لطف اندوز ہوتا رہا ہوں، اس وقت لگتا تھا کہ دوستوں کے ساتھ خوش گپیوں میں کھانے کا مزا ہی الگ ہے۔ اگر کبھی میرے والد کو علم ہو جاتا کہ میں بازار سے کھانا کھا کر آیا ہوں تو مجھے بھی ڈانٹ پڑتی، لیکن عملی احساس تب ہوا جب صحت بگڑ گئی، اور سمجھ آئی کہ ابو ٹھیک ہی کہتے تھے۔
بچوں کی من مانیاں اور بزرگوں کی بے اثر ڈانٹ ڈپٹ کا یہ سلسلہ بہت پرانا ہے۔ اسی ڈانٹ ڈپٹ اور من مانیوں میں بچے بڑے ہو جاتے ہیں اور پھر وہ اپنے بچوں کو ڈانٹنے کی ڈیوٹی سنبھال لیتے ہیں، شاید انسانی تہذیب کا یہ سفر یونہی جاری رہے گا مگر عمر کے اس حصے میں میں نے سیکھا ہے کہ بات وہی اثر رکھتی ہے جو تجربے اور وقت کی زبان سے نکلتی ہے۔
ڈاکٹر شاہد رضا