Shadow
سرخیاں
پولینڈ: یوکرینی گندم کی درآمد پر کسانوں کا احتجاج، سرحد بند کر دیخود کشی کے لیے آن لائن سہولت، بین الاقوامی نیٹ ورک ملوث، صرف برطانیہ میں 130 افراد کی موت، چشم کشا انکشافاتپوپ فرانسس کی یک صنف سماج کے نظریہ پر سخت تنقید، دور جدید کا بدترین نظریہ قرار دے دیاصدر ایردوعان کا اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں رنگ برنگے بینروں پر اعتراض، ہم جنس پرستی سے مشابہہ قرار دے دیا، معاملہ سیکرٹری جنرل کے سامنے اٹھانے کا عندیامغرب روس کو شکست دینے کے خبط میں مبتلا ہے، یہ ان کے خود کے لیے بھی خطرناک ہے: جنرل اسمبلی اجلاس میں سرگئی لاوروو کا خطاباروناچل پردیش: 3 کھلاڑی چین اور ہندوستان کے مابین متنازعہ علاقے کی سیاست کا نشانہ بن گئے، ایشیائی کھیلوں کے مقابلے میں شامل نہ ہو سکےایشیا میں امن و استحکام کے لیے چین کا ایک اور بڑا قدم: شام کے ساتھ تذویراتی تعلقات کا اعلانامریکی تاریخ کی سب سے بڑی خفیہ و حساس دستاویزات کی چوری: انوکھے طریقے پر ادارے سر پکڑ کر بیٹھ گئےیورپی کمیشن صدر نے دوسری جنگ عظیم میں جاپان پر جوہری حملے کا ذمہ دار روس کو قرار دے دیااگر خطے میں کوئی بھی ملک جوہری قوت بنتا ہے تو سعودیہ بھی مجبور ہو گا کہ جوہری ہتھیار حاصل کرے: محمد بن سلمان

بچوں کو بڑوں کی ڈانٹ ڈپٹ کی ابدی روایت اور تجربے کی بھٹی

میں ایک ڈاکٹر ہوں، لیکن میرا بیٹا بھی میرے لاکھ منع کرنے کے باوجود مجھ سے چوری دوستوں کے ساتھ ریستورانوں میں کھانے کھاتا ہے۔ میں اب اس چیز کو جان گیا ہوں کہ وہ میری بات نہیں سمجھ پا رہا، لیکن پھر بھی اپنی تسلی کے لیے اکثر نت نئے طریقوں سے اسے سمجھانے کی کوشش کرتا رہتا ہوں، اسے ڈانٹتا بھی ہوں اور بازار کے ناقص کھانوں کے مضر اثرات سے ڈراتا بھی رہتا ہوں، لیکن تاحال اسےمنع کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ بسا اوقات مجھے لگتا ہے کہ یہ انسانی فطرت میں ہے کہ اسے سبق کی دوہرائی مطلوب رہتی ہے، اس لیے کتاب ہدایت نازل ہونے کے باوجود اللہ نے ہر جمعہ انسان کو جمعے کے اجتماع کے لیے طلب کیا ہے۔

خیر، اپنے بیٹے کے حوالے سے پریشانی کے ساتھ ساتھ بسا اوقات اپنے ماضی میں بھی کھو جاتا ہوں، یاد کرتا ہوں کہ میں بھی اس کی عمر میں ایسے ہی دوستوں کے ساتھ بازاری کھانوں سے خوب لطف اندوز ہوتا رہا ہوں، اس وقت لگتا تھا کہ دوستوں کے ساتھ خوش گپیوں میں کھانے کا مزا ہی الگ ہے۔ اگر کبھی میرے والد کو علم ہو جاتا کہ میں بازار سے کھانا کھا کر آیا ہوں تو مجھے بھی ڈانٹ پڑتی، لیکن عملی احساس تب ہوا جب صحت بگڑ گئی، اور سمجھ آئی کہ ابو ٹھیک ہی کہتے تھے۔

بچوں کی من مانیاں اور بزرگوں کی بے اثر ڈانٹ ڈپٹ کا یہ سلسلہ بہت پرانا ہے۔ اسی ڈانٹ ڈپٹ اور من مانیوں میں بچے بڑے ہو جاتے ہیں اور پھر وہ اپنے بچوں کو ڈانٹنے کی ڈیوٹی سنبھال لیتے ہیں، شاید انسانی تہذیب کا یہ سفر یونہی جاری رہے گا مگر عمر کے اس حصے میں میں نے سیکھا ہے کہ بات وہی اثر رکھتی ہے جو تجربے اور وقت کی زبان سے نکلتی ہے۔

ڈاکٹر شاہد رضا

ڈاکٹر شاہد رضا
دوست و احباب کو تجویز کریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

nine + twenty =

Contact Us