امریکہ میں سائنسی تجربات کے ایک منصوبے میں جینیاتی طور پر تبدیل شدہ مچھروں کا اجراء لوگوں میں تشویش کا باعث بن گیا ہے۔ فلوریڈا کیز میں بیماریوں سے نمٹنے میں مدد فراہم کرنے کے لئے ہزاروں جینیاتی طور پر تبدیل شدہ مچھروں کو چھوڑنے کے منصوبے کے نتیجے میں مقامی لوگوں میں شدید خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ مجرمانہ تجربہ انہیں گنی خنزیر میں بدل دے گا۔
فلوریڈا کیزضلعی مچھر کنٹرول (ایف کے ایم سی ڈی) اور ایک برطانوی بایو ٹیک کمپنی، جس کو بل اور میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن کی حمایت حاصل ہے، کی سربراہی میں اس منصوبے کو رواں ہفتے شروع کیا جائے گا۔
اس منصوبے کے پہلے مرحلے میں مچھر خانوں کو چھ مقامات پر رکھا جائے گا، جہاں سے 12 ہفتوں میں تقریبا 144000 ایڈیز ایجیپٹی مچھر نکلیں گے۔ مذکورہ مچھر ایک ایسی نسل سے تعلق رکھتے ہے جو ڈینگی، زیکا اور پیلے بخار جیسی بیماریاں منتقل کرتے ہیں۔ اس منصوبہ کی کامیابی سے نہ کاٹنے والا نر مچھر، مقامی کاٹنے والی مادہ مچھر کے ساتھ مل جائیں گے، ملاپ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مادہ مچھر مر جائیں گی اور ایڈیز ایجیپٹی مچھرکی آبادی کو کنٹرول کرنے میں مدد ملے گی۔
آکسفورڈ یونیورسٹی میں 2002 میں قائم ہونے والا برطانوی ادارہ آکسیٹیک کا دعویٰ ہے کہ اس منصوبے کوعوامی حمایت حاصل ہے لیکن مقامی آبادی نے منصوبے کے حوالے سے شدید شکوک و شبہات اور تشویش کا اظہار کیا ہے۔
یاد رہے کہ آکسائٹیک جینیاتی طورپرتبدیل شدہ مچھروں کا پہلے بھی اجراء کرتا رہا ہے۔ اس ادارے نے پہلے بھی جنوبی امریکہ اور کیریبین جزائر میں ایک ارب سے زیادہ جنیاتی طور پر ترمیم شدہ مچھر چھوڑے ہیں۔ اسی طرح برازیل میں 2013 میں 27 ماہ پر مشتمل ایک طویل تجربے کے تحت بھی مقامی مچھروں کی آبادی کو 90 فیصد کم کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ تاہم آکسائٹیک کو 2019 میں اس وقت شدید تنقید کا نشانہ بننا پڑا جب محققین نے الزام لگایا کہ کہ مچھر دوبارہ نسل کشی کررہے ہیں، جن میں 60فیصد میں ترمیم شدہ جین بھی پائے گئے۔ اگرچہ کمپنی ان نتائج سے متفق نہیں اور دعوؤں کو متنازع مانتی ہے، کمپنی اب بھی تجربے کو کامیاب مانتی ہے۔
یاد رہے کہ ماضی میں بھی کمپنی کو شدید تنقید کا سامنا رہا ہے۔ کیریبین جزائر میں ایسا ہی ایک منصوبہ 2018 میں اس وقت ختم کیا گیا جب مقامی حکام نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ ناکام ہوچکا ہے۔