Shadow
سرخیاں
پولینڈ: یوکرینی گندم کی درآمد پر کسانوں کا احتجاج، سرحد بند کر دیخود کشی کے لیے آن لائن سہولت، بین الاقوامی نیٹ ورک ملوث، صرف برطانیہ میں 130 افراد کی موت، چشم کشا انکشافاتپوپ فرانسس کی یک صنف سماج کے نظریہ پر سخت تنقید، دور جدید کا بدترین نظریہ قرار دے دیاصدر ایردوعان کا اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں رنگ برنگے بینروں پر اعتراض، ہم جنس پرستی سے مشابہہ قرار دے دیا، معاملہ سیکرٹری جنرل کے سامنے اٹھانے کا عندیامغرب روس کو شکست دینے کے خبط میں مبتلا ہے، یہ ان کے خود کے لیے بھی خطرناک ہے: جنرل اسمبلی اجلاس میں سرگئی لاوروو کا خطاباروناچل پردیش: 3 کھلاڑی چین اور ہندوستان کے مابین متنازعہ علاقے کی سیاست کا نشانہ بن گئے، ایشیائی کھیلوں کے مقابلے میں شامل نہ ہو سکےایشیا میں امن و استحکام کے لیے چین کا ایک اور بڑا قدم: شام کے ساتھ تذویراتی تعلقات کا اعلانامریکی تاریخ کی سب سے بڑی خفیہ و حساس دستاویزات کی چوری: انوکھے طریقے پر ادارے سر پکڑ کر بیٹھ گئےیورپی کمیشن صدر نے دوسری جنگ عظیم میں جاپان پر جوہری حملے کا ذمہ دار روس کو قرار دے دیااگر خطے میں کوئی بھی ملک جوہری قوت بنتا ہے تو سعودیہ بھی مجبور ہو گا کہ جوہری ہتھیار حاصل کرے: محمد بن سلمان

بولیویا کے صدارتی انتخابات میں مبینہ امریکی مداخلت کا ایک اور ثبوت سامنے آگیا

امریکہ کے بولیویا کے صدارتی انتخابات میں مبینہ مداخلت کی قیاس آرائیوں میں ایک بار پھر اضافہ  ہو گیا ہے۔ امریکہ سے سامنے آنے والے ای میلوں کے ایک سلسلے میں عیاں ہوا ہے کہ امریکی محکمہ انصاف کی ایک نامور وکیل اپنے معاونین کو بولیویا میں 2019 کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کو مسترد کرنے پر سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتی ہے۔

اکتوبر 2020 اور جنوری 2021 کے درمیان انجیلا جارج جو کہ محکمہ انصاف کے دفتر برائے بین الاقوامی امور میں ایک مقدمے کی وکیل ہے، نے میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے محققین کو کئی  بار بولیویا پر کی گئی ایک تحقیق حاصل کرنے کے لیے پیغام بھیجا ہے اور تحقیق کی تفصیلات نہ دینے پر انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔

مرکز برائے معاشیات و پالیسی تحقیق (سی ای پی آر) کے لیے کی گئی تحقیق میں ایم آئی ٹی کے محققین جیک ولیمز اور جان کوریل نے موجودہ بولیویا کے صدر ایوو مورالس اور ان کی تحریک ٹوورڈ سوشلزم تنظیم (ایم اے ایس)  پر انتخابات میں دھاندلی کرنے کے الزامات کو مسترد کیا ہے۔

اکتوبر 2019 میں چوتھی بار اقتدار میں آنے کے بعد مورالس پر حزب اختلاف کی جماعتوں نے انتخابی دھاندلی کے الزامات لگائے، الزامات میں اس وقت شدت آئی جب واشنگٹن میں قائم  امریکی ریاستوں کے لیے علاقائی تعاون کی تنظیم (او اے ایس)  نے معاملے کی تحقیق شروع کی۔

لاطینی امریکہ کے لیے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے دفتر خارجہ کے اعلیٰ سفارتکار، مائیکل کوزک نے میڈیا پہ وعدہ کیا کہ بولیویا کے جمہوری اداروں کو نقصان پہنچانے والے ہر فرد کا احتساب کیا جائے گا، اور پھر تین ہفتوں کی بدامنی کے بعد حزب اختلاف نے ایک بغاوت  کے ذریعے جینینے اینز کو صدر مقرر کردیا۔

سی ای پی آر کی تحقیق فروری 2020 میں شائع ہوئی جس میں سامنے آیا کہ انتخابات میں نہ تو دھاندلی ہوئی تھی اور نہ ہی بڑے پیمانے پر بےضابطگیوں کے ثبوت ملے تھے۔ واضح رہے کہ نیو یارک ٹائمز اور دیگر بڑے امریکی ذرائع ابلاغ نے بے ضابطگیوں کی بنیاد پر ہی دھاندلی کا سارا شور پیدا کیا تھا۔

حزب اختلاف امریکی حمایت یافتہ صدر کو اقتدار میں تو لے آئی لیکن اس کے ردعمل میں ہونے والے عوامی مظاہروں اور بدامنی کے باعث اکتوبر 2020 میں دوبارہ انتخابات ہوئے اور عوام ایک بار پھر جمہوری طریقے سے من چاہی قیادت کو واپس لانے میں کامیاب رہی۔

اگرچہ مورالس 2020 کے انتخابات کے دوران جلاوطن تھے، لیکن ایم اے ایس نے بھاری اکثریت سے انتخاب جیتا، اور مورالس واپس لوٹ آئے۔ جینینی اینز نئے انتخابات سے ایک ماہ قبل ہی انتخابات سے  دستبردار ہو گئیں اور اب انہیں دہشت گردی، بغاوت اور سازش کے الزامات کا سامنا ہے۔

امریکی محکمہ انصاف کی وکیل انجیلا جارج کی طرف سے تحقیقی ادارے کو پہلا برقی پیغام انتخابات سے محض تین دن قبل 15 اکتوبر کو لکھا گیا۔ ابتدائی پیغام میں امریکی محکمہ انصاف کے وکیل نے لکھا ہے کہ بولیویا کی حکومت نے “فوجداری تحقیقات” کے لیے ان مطالعاتی اعداد و شمار کو “باضابطہ طور درخواست” کے ذریعے منگوایا تھا۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے، تحقیقات سے واقف ایک شخص نے بتایا ہے کہ محکمہ انصاف کی انکوائری نے محققین میں انتخابات کا تجزیہ کرنے والوں کو خوفزدہ کیا اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تحقیقات پر بھی منفی اثر پڑا۔

دوست و احباب کو تجویز کریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

6 − four =

Contact Us