کرونا وائرس کی پہلی لہر پاکستان آئی تو سوشل میڈیا پر کرونا کے علاج کیلئے سنا مکی کا پرچار کچھ اس زور وشور سے کیا گیا کہ اس سے متاثر ہو کر لوگوں نے دھڑا دھڑ پنسار خانوں کا رخ کیا اور سنا مکی کا قہوہ پینا شروع کر دیا۔ کچھ لوگوں نے اس کے استعمال سے پیٹ درد اور پتلے پاخانے آنے کی شکائیت بھی کی۔ کرونا کے کسی مریض کو اس سے فائدہ ہوا یا نہیں، کچھ کہہ نہیں سکتا البتہ پنساریوں نے اس کا ریٹ کئی گنا بڑھا کر خوب منافع کمایا۔
اسی طرح کچھ عرصہ قبل سہانجنہ (مورنگا) کا بطور کایا پلٹ ٹانک بڑا چرچا تھا۔ اس کا دوا ساز کمپنیوں نے خوب فائدہ اٹھایا، مورنگا پاؤڈر، مورنگا ٹیبلٹ اور مورنگا مدرٹنکچر بھی مہنگے داموں مارکیٹ میں آ گیا، خوب اشتہار بازی کی گئی۔ باقی رہی سہی کسر لوگوں نے پوری کر دی، سہانجنہ کے سارے درخت ہی ٹنڈمند کر کے رکھ دئیے۔
“طاقت کا سرچشمہ” اور “تین سو سے زائد بیماریوں کا علاج” جیسی سرخیاں پڑھ کر میں بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا اور ٹارزن بننے کی اس دوڑ میں میں بھی شامل ہو گیا۔ ایک مہربان سے سہانجنہ کے تازہ پتے منگوائے خشک کر کے سفوف بنایا اور روزانہ ایک چمچ سفوف کا استعمال کرنا شروع کر دیا۔ میں عام حالات میں میٹھا بہت کم استعمال کرتا ہوں مگر اس کے استعمال سے میری میٹھا کھانے کی خواہش اتنی بڑھ گئی کہ روزانہ شام چائے کے ساتھ شکرپارے بھی کھانے شروع کر دیئے۔ تین ہفتے استعمال کرنے سے میں پہلوان تو نہ بنا البتہ میری جلد میں خشکی سی آنی شروع ہو گئی اور میں نے استعمال ترک کر دیا، شائد میرے مزاج کے موافق نہیں تھا۔
ان دنوں ہومیو پیتھی کی اسپیڈوسپرما کی بڑی دھوم مچی ہوئی ہے۔ اس سے قبل یہ دوا غیر معروف تھی، مٹیریا میڈیکا میں اس کا چھوٹا سا تعارف موجود ہے، لگتا ہے ابھی تک اسکی مکمل ڈرگ پروونگ نہیں ہو سکی اور نہ ہی سابقہ ہسٹری میں ہومیوپیتھک لیجنڈز کے کوئی تجربات ملتے ہیں۔
لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اور دوا ساز کمپنیاں اس موقع سے کتنا فائدہ اٹھاتی ہیں۔