فلپائن اور چین میں بحیرہ جنوبی چین کی سمندری حدود پر اختلاف بڑھ گئے ہیں۔ فلپائن کے صدر نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ چین کے ساتھ متنازعہ سرحدی پانیوں سے اپنے ملک کے بحری جہاز واپس نہیں بلائیں گے جس کے باعث دونوں ممالک کے مابین ایک طویل عرصے سے جاری تنازعہ مزید بڑھ گیا ہے۔ ٹیلی ویژن سے خطاب کرتے ہوئے صدر رودریگو نے کہا کہ وہ چینی مطالبات پر عمل نہیں کریں گے اور بحیرہ جنوبی چین میں جزیروں کی خودمختاری کے لیے زور دیتے رہیں گے۔
“ہمارا ہمیشہ سے یہ مؤقف رہا ہے اور میں اسے یہاں اب ایک بار پھر بیان کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے بحری جہاز ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔” رودریگو نے مزید کہا کہ “میں پیچھے نہیں ہٹوں گا۔ چاہے آپ مجھے مار دیں۔ ہماری چین سے دوستی یہاں ختم سمجھو۔”
اپریل میں چین نے فلپائن سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنے جہازوں کو متنازعہ پانیوں سے ہٹائے اور بحیرہ جنوبی چین میں کشیدگی کو مزید پیچیدہ بنانے اور تنازعات کو ہوا دینے والے اقدامات بند کردے۔
جس پر صدر رودریگو نے کہا کہ وہ چین کی حیثیت کا احترام کرتے ہیں اور وہ مشکلات یا جنگ میں نہیں گرنا چاہتے ہیں۔
واضح رہے کہ بیجنگ کے ساتھ قریبی تعلقات پر امریکہ نواز مقامی میڈیا صدر رودریگو پر کڑی تنقید کرتا رہتا ہے۔ تاہم اپریل میں بحیرہ جنوبی چین میں بحری جہاز بھیجنے اور مقامی جزیروں پر فلپینی دعوؤں کے اسرار پر ان کی خوب واہ واہ کی جا رہی ہے۔
گزشتہ ہفتے بحیرہ جنوبی چین میں فلپینی بحریہ نے چین کو اپنے 287 چھوٹے و بڑے بحری جہازوں کے ذریعے سمندری علاقے میں گھسنے کی اطلاع دی تھی۔ اس کے علاوہ فلپائن چین سے 2016 میں عالمی ثالثی عدالت کے فیصلے کے مطابق اپنے جہاز ہٹانے کا مطالبہ کر رہا ہے، جس میں عدالت نے چین کے علاقے پر دعوؤں کو مسترد کر دیا تھا۔
بحیرہ جنوبی چین کے جزیروں کی ملکیت کا دعویٰ نہ صرف چین اور فلپائن کرتے ہیں۔ بلکہ ویتنام، ملیشیا، انڈونیشیا، تائیوان اور برونائی بھی وسائل سے مالا مال اور تذویراتی گہرائی کے حامل علاقے کی ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں۔