وہ اک ستارہ جو ضوفگن تھا حیات کے مغربی افق پر سیاہ شب کے پاسبانو خوشی مناؤ کہ وہ بھی ڈوبا
شبِ تاریک میں کسی قافلے کے مشعل بردار کا چھن جانا ایک ایسا نقصان ہے جس کی بھرپائی ایک مشکل عمل ہے۔ تاریک راتوں میں قندیل رہبانی کا کام انجام دینے والوں کی تعداد بہت مختصر ہوتی ہے۔ ملت اسلامیہ کشمیر ایسے ہی ایک چراغ سے محروم ہوگئی۔ تحریکِ آزادئ کشمیر کی صف اوّل کے رہنما محمد اشرف خان صحرائی سنت یوسفی کی ادائیگی کے دوران اپنے خالق حقیقی سے جا ملے، اور کشمیری قافلے کا ایک اور چراغ بجھ گیا۔ صحرائی صاحب کا ثبات کوہِ بلند قامت جیسا تھا۔ ایک اونچی چوٹی والے پہاڑ کی مانند، جو زلزلوں میں بھی قائم رہتا ہے۔ وہ عظمتوں اور عزیمتوں کا ایک ایسا پہاڑ تھے جن کے ثبات سے انسانیت حق پر ثابت قدم رہنے کا سبق سیکھتی ہے۔
یہ صحرائی صاحب ہی تھے جنہوں نے عالمِ شباب میں شیخ عبداللہ کو 1975 کے اسمبلی انتخابات میں للکارا تو کاغذی شیرِ کشمیر کی ساری شیخی ہوا ہوگئی، اور وہ اپنی عادت سے مجبور اُوچھی حرکتوں اور دھونس دباؤ کی سیاست پر اتر آیا، لیکن نمائندہ کشمیر کے قدم نہیں ڈگمگائے، بلکہ اُن کی للکار وادی کے طول و عرض میں ایک ایسے انقلاب کو صور پھونک گئی جس نے خفتہ نوجوانوں کے عزم کو مہمیز عطا کردی۔
صحرائی صاحب ایک صاف گو انسان تھے۔ وہ حق بات کہنے والے اور حق بات پر مثلِ چٹان قائم رہنے والے قائد تھے۔ انہوں نے مشکل ترین ادوار میں بھی تحریکِ کشمیر کے حوالے سے اپنے مؤقف میں ذرہ برابر بھی انحراف نہ کیا۔ وہ ہر قیمت ادا کرکے حق کی بات کہنے والے تھے۔
صحرائی صاحب قربانی کا استعارہ تھے، گویا اُن کی شخصیت کا دوسرا نام ہی فدا کاری ہو۔ وہ رضائے رب کی خاطر سب کچھ تج دینے والا ایک منفرد مسافر تھا۔ ایک ایسا مسافر جو سفر کی تکان کا بالکل بھی شاکی نہ تھا۔ اُن پر بس ایک ہی دھن سوار تھی، اپنی منزل پر پہنچنے کی دھن۔ اپنی زندگی کے طویل 14 سالوں کے ماہ و سال جیل کی تاریک کوٹھڑی میں گزار کر بھی وہ اس منزل کا خواب دیکھنے سے باز نہیں آئے۔
اُن کی شخصیت کا خاصہ یہ تھا کہ وہ سب کچھ براہیمیؑ طرز پر وار دینے والی قبیل سے تعلق رکھتے تھے۔ جوانی، شباب، عمر حیات، مال و اسباب، اپنا لخت جگر، اور آخر میں اپنا وجود وار دینا اُن ہی کی شخصیت کا ایک مختصر خاکہ ہے۔ صرف ایک سال پہلے اُن کا لخت جگر داد شجاعت دیتے ہوئے مرتبہ شہادت پر فائز ہوا۔ اپنے لخت جگر کی شہادت پر جس عزم و ثبات کا مظاہرہ انہوں نے کیا اُس سے قرون اؑولیٰ کے عظیم مسلمانوں کی یاد تازہ ہوگئی۔
صحرائی صاحب تحریک آزادئ کشمیر کا درخشندہ باب ہیں۔ ایک ایسا باب جو طویل عرصے تک قافلہ سخت جان کے راہروان کے لیے نشان منزل کی حیثیت سے رہنمائی کرتا رہے گا۔ ان کی پامردی و استقلال ایک مظلوم قوم کا سہارا تھا، جس سے محرومی طویل وقت تک محسوس ہوتی رہے گی۔ اس خلا کی بھرپائی بہت مشکل ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہماری مظلوم قوم کو بہترین نعم البدل سے نوازے۔ (آمین)
ابو لقمان – کشمیر