گورنمنٹ پائلٹ سکول، سیالکوٹ آٹھویں جماعت میں ہمیں ماسٹر فیروز دین صاحب ڈرائنگ سیکھاتے تھے، بہت اعلیٰ ظرف کے انسان اور مشفق استاد تھے۔ ڈرائنگ کے پیریڈ میں پوری جماعت کو ڈرائنگ روم میں جانا پڑتا تھا۔ ڈرائنگ روم قابل دید تھا، پورا ڈرائنگ روم فیروز دین صاحب کے شاہکاروں سے سجا ہوا تھا۔ ایک دن انہوں نے سب طلباء کو گھر سے سیب بنا کر لانے کا کام دیا۔
اگلے دن گھریلو مشق دیکھتے ہوئے ایک لڑکے کو کھڑا کیا اور قدرے برہمی سے بولے کہ “یہ تم نے سیب بنا کر نیچے سیب کیوں لکھا ہے؟ کیا تمہیں شک ہے کہ دیکھنے والا اسے سیب کی بجائے کچھ اور سمجھ لے گا؟؟؟
پھر بولے کہ “تم کام ہی ایسا کرو کہ وہ خود بولے، تمہارا کام دیکھتے ہی دیکھنے والا اسے بلا وضاحت پہچان جائے کہ یہ سیب ہے۔”
پھر تھوڑے تؤقف کے بعد پوری جماعت سے مخاطب ہوئے اور کہا کہ “کام کا معیار انسان کی شخصیت کا عکاس ہوتا ہے۔ زندگی میں جو بھی کام کرو پوری لگن، محنت اور سلیقے سے کرو تاکہ آپ کی شخصیت میں نکھار پیدا ہو”۔
بات تو سادی سی تھی مگر اس میں پوری جماعت کے لیے ایک انمول سبق پنہا تھا اور یہ سبق ایک طالب علم کی چھوٹی سی غلطی سے ہم سب نے سیکھا۔
غور کیا جائے تو ہر غلطی انسان کو ایک نیا سبق سیکھاتی ہے۔ کچھ لوگ ایک دفعہ غلطی کر کے سبق سیکھ لیتے ہیں اور کچھ بار بار وہی غلطی دہراتے رہتے ہیں مگر سبق نہیں سیکھتے۔