ایران کے سابق صدر محمود احمدی نژاد ایک بار پھر صدارتی دوڑ میں شامل ہو گئے ہیں۔ ملک کے آئندہ صدارتی انتخابات میں چیف جسٹس اور پارلیمنٹ کے سابق اسپیکر بھی ان کے مدمقابل ہوں گے۔
ایران میں 18 جون کو اگلے صدارتی انتخابات ہوں گے جس میں صدر حسن روحانی کے جانشین کا تعین ہو گا۔ صدر حسن روحانی نے مغرب کی نظر میں ایک اعتدال پسند رہنما کے طور پر ملک کو چلایا جنہوں نے جوہری منصوبہ ترک کر کے امریکہ کے ساتھ 2015 میں کامیاب معاشی معاہدہ کیا۔ ملکی قانون کے مطابق وہ مسلسل تیسری بار صدارت کے لیے انتخابات میں شمولیت نہیں کر سکتے لہٰذا وہ دوڑ میں حصہ لیے بغیر ہی باہر ہو جائیں گے۔
حسن روحانی کی جگہ اگر احمدی نژاد، جو مغرب کے سامنے ایک سخت گیر رہنما کی شہرت کے حامل ہیں، منتخب ہو جاتے ہیں تو ایران کا معاشی معاہدہ دوبارہ خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ تاہم مختلف سیاسی حلقے احمدی نژاد کو ایک مظبوط امیدوار کے طور پر نہیں دیکھ رہے۔
احمدی نژاد جب اپنے کاغذات نامزدگی جمع کروانے وزارت داخلہ پہنچے تو ان کے ساتھ ان کے حامیوں کا ایک بڑا ہجوم تھا۔ سابق صدر جو خود کو مرکزی دھارے کے سیاستدان کی حیثیت سے پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں، کو 2017 میں صدارتی انتخابات لڑنے سے روک دیا گیا تھا۔
آئندہ انتخابات کے لیے اندراج کے آخری دن ایران کے مزید دو اہم سیاسی چہرے بھی دوڑ میں شامل ہوگئے ہیں۔ جن میں انتہائی متنازعہ چیف جسٹس ابراہیم رئیسی اور قدامت پسند سابق اسپیکر پارلیمنٹ علی لاریجانی شامل ہیں۔
حجۃ الاسلام کا لقب پانے والا رئیسی ملک کے روحانی پیشوا آیت اللہ علی خامنہ ای کے بعد دوسرے طاقتور رہنما ہیں، 2017 میں بھی وہ صدارتی انتخاب میں شریک ہوئے تھے لیکن انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
ابراہیم رئیسی اب انتظامی تبدیلی، غربت اور بدعنوانی کے خاتمے، اور امتیازی سلوک کے خلاف جدودجہد کا نعرہ لے کر میدان میں اترے ہیں۔ چیف جسٹس کی حیثیت سے بھی ابراہیم رئیسی نے انسداد بدعنوانی کے لیے بڑے پیمانے پر مہم چلا رکھی ہے۔ تاہم ملک کا اصلاح پسند حلقہ انہیں ایک سخت گیر جج سمجھتا ہے۔
ابراہیم رئیسی کا کہنا ہے کہ وہ ایک آزاد امیدوار کے طور پر انتخابات میں شامل ہوں گے اور کسی سیاسی گروہ کا حصہ نہیں بنیں گے، تاہم سیاسی ماہرین کے مطابق انہیں ایران کے قدامت پسند گروہوں کی پوری حمایت حاصل ہے۔ ابراہیم رئیسی جوہری منصوبہ ترک کرنے اور معاشی پیکج لینے پر صدر روحانی کے بڑے مخالفین میں شمار ہوتے ہیں۔
رئیسی کے ممکنہ بڑے حریف، علی لاریجانی بھی پہلی بار صدارتی دوڑ میں شامل نہیں ہورہے ہیں۔ انہوں نے 2005 میں بھی قسمت آزمائی کی لیکن احمدی نژاد سے ہار گئے تھے۔ بعد میں انہوں نے ایران کی قومی سلامتی کونسل کے سیکرٹری جنرل کے طور پر خدمات سرانجام دیں اور 2020 تک پارلیمنٹ کے اسپیکر بھی رہے ہیں۔
لاریجانی کو ایک معتدل قدامت پسند کی حیثیت سے قدامت پسند اور اصلاح پسند دونوں کی طرف سے ایک ممکنہ اتحادی کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ وہ آیت اللہ علی خامنہ ای کے مشیر کی حیثیت سے بھی کام کر چکے ہیں، اور امریکہ کے ساتھ معاشی معاہدے کے حامیوں میں شامل ہیں۔
پارلیمنٹ کے سابق اسپیکر بظاہر معاشی ترقی کا نعرہ لے کر میدان میں اترے ہیں اور دعویٰ کیا ہے کہ دیگر امیدوار ملک کے بنیادی معاشی مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں۔
عالمی سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران کے آئندہ صدارتی انتخابات میں جوہری معاہدہ اہم ترین مدعہ ہو گا، حسن روحانی کی انتظامیہ کی اس حوالے سے کامیابی انکے حمایت یافتہ امیدوار کو سہارا دے سکتی ہے، جبکہ ان کے مخالفین کے لیے بھی یہ ملکی حمیت کا سب سے بڑا سودا ہوگا، جس کی بنیاد پر وہ اپنے حامیوں کو اکٹھا کریں گے۔
واضح رہے کہ صدارتی دوڑ میں شامل تمام اُمیدواروں کی ایرانی پاسداران کونسل سے توثیق ابھی باقی ہے، 12 رکنی کونسل 27 مئی تک منظور شدہ امیدواروں کی فہرست شائع کرے گی، جس کے بعد انتخابی مہم کا باقائدہ آغاز ہو جائے گا۔