امریکہ نے برما کے کچھ عسکری اور ریاستی انتظامی کونسل کے مزید 13 اہم عہدے داروں پر بھی معاشی و سفری پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
امریکی محکمہ خزانہ نے پابندیاں عائد کرتے ہوئے اپنے اعلامیے میں کہا ہے کہ برما کے فوجی سربراہ اور بغاوت کرنے والے دیگر اعلیٰ عہدے داروں کو ملک میں جمہوری رہنماؤں پر تشدد اور بچوں سمیت عوام کے خلاف ظلم روا رکھنے کے جرائم میں نامزد کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ امریکی انتظامیہ نے اعلیٰ عسکری عہدے داروں کے آزاد کاروبار کرنے والے 3 جوان بچوں پر بھی پابندیاں عائد کی ہیں اور ریاستی انتظامی کونسل کے قیام کو بھی غیر قانونی قرار دی گیا ہے۔
پابندیوں کا شکار بننے والے عہدے داروں کے اگر امریکہ میں اثاثے ہوں گے تو وہ منجمند ہو جائیں گے اور انہیں امریکی شہریوں کے ساتھ کاروبار کرنے سے روک دیا جائے گا۔ واضح رہے کہ امریکہ نے اس سے پہلے بھی بغاوت کرنے کی پاداش میں متعدد برمی فوجی عہدیداروں اور سرکاری کمپنیوں پر پابندی لگا رکھی ہے۔
یاد رہے کہ یکم فروری کو انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے ملک میں انتشار کے باعث فوج نے آنگ سان سوچی کی حکومت کے خلاف بغاوت کر دی تھی اور وزیراعظم سوچی سمیت متعددسیاسی و انتظامی افراد کو حراست میں لے لیا تھا۔ ملک کا انتظام چلانے کے لیے فوج نے ایک انتظامی کونسل بنائی جس میں عسکری و عوامی رہنماؤں کو شامل کیا گیا۔ فوج نے کونسل مخالف مظاہروں پر عائد کر رکھی ہے۔ تاہم امریکہ نواز غیر سرکاری تنظیموں اور آنگ سان سوچی کے حامیوں کی جانب سے منعقد مظاہروں پر پولیس کے تشدد کے باعث 800 سے زائد شہریوں کے ہلاک ہونے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔