فرانس کی اعلیٰ ترین قانون ساز عدالت نے صدر ایمینیؤل میخرون کے حمایت یافتہ ایک متنازعہ قانون کو مسترد کردیاہے۔ مجوزہ قانونی مسودے میں پولیس اہلکاروں کی شہریوں پر تشدد کرتے تصاویر و ویڈیو بنانے پر پابندی لگائی گئی تھی، جسے حکومت اہلکاروں کے تحفظ کے لیے ضروری قرار دے رہی تھی۔
عالمی تحفظ قانون کی دفعہ 24 کے تحت کام میں مصروف پولیس یا فوجی افسران کے چہرے یا نام کی نشاندہی کرنے والی تصاویر یا ویڈیو کی اشاعت پر پانچ سال قید اور 91 ہزار ڈالر کا جرمانہ کیا جا سکے گا۔
نومبر 2020 میں سامنے آنے کے بعد سے فرانس میں مجوزہ قانونی مسودے کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے ہورہے ہیں، شہری قانون کو شہری آزادیوں پر حملہ قرار دے رہے ہیں اور پولیس کے طرز عمل میں بڑھتے تشدد کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
نو رکنی آئینی کونسل نے اپنے ایک فیصلے میں دفعہ 24 کے قانونی سقم کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مقنّنہ مبینہ جرم کے ارتکاب کو کرنے والے عناصر کی طلب کی گئی وضاحت پیش کرنے میں ناکام رہی ہے، لہذا یہ مسودہ غیر آئینی قرار پاتا ہے۔
کونسل نے فیصلے میں مزید لکھا ہے کہ مسودے میں ابہام مختلف توضیحات کو ممکن بناتا ہے۔ کونسل نے کہا کہ موجودہ متن اس بارے میں واضح نہیں ہے کہ قانون ساز اراکین زیادہ وسیع پیمانے پر پولیس کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں یا فرائض انجام دینے والے اہلکاروں کی؟
کونسل نے یہ بھی استدلال کیا ہے کہ اس قانون کو مظاہرین اور صحافیوں کی گرفتاری کا جواز فراہم کرنے کے ممکنہ استعمال سے آزادی اظہار رائے کی سراسر خلاف ورزی ہوگی۔
واضح رہے کہ آئینی عدالت کے اس فیصلے سے صدر میخرون کی انتظامیہ کو بڑا دھچکا لگا ہے، خصوصی طور پر وزیر داخلہ جیرالڈ دارمینن مقامی پولیس کو تحفظ فراہم کرنے کے نام پر ممکنہ نسلی تعصب پر مبنی تشدد کو تحفظ دینے والے اس قانون کے حامی تھے۔