ماحولیاتی مسائل کے معروف امریکی قانون دان سٹیون ڈونژیگر کو عدالت کی توہین کے جرم میں سزا اور قتل کے خطرات کا سامنا ہے۔ ڈونژیگر کے وکلاں کا ماننا ہے کہ امریکی نظام انصاف میں موجود بڑی کمپنیوں کے پِٹھو جج انکے مؤکل کو بہانے سے ضرور سزا دیں گے۔
ڈونژیگر کے وکلاں نے تیل کی بڑی کمپنی شیورون پر انکے مؤکل کے خلاف منفی پراپیگنڈا کی مہم چلانے اور عدلیہ میں موجود اپنے اثرورسوخ کو استعمال کرتے ہوئے سزا دلانے کی کوششوں کا الزام لگایا ہے۔
یاد رہے کہ ڈونژیگر ایکواڈور میں شیورون کمپنی کا تیل خارج ہونے کے باعث نقصان اٹھانے والے غریب دیہاتیوں کے وکیل رہے ہیں جس میں کمپنی کو کروڑوں ڈالر جرمانے کی سزا سنائی گئی تھی۔
ڈونژیگر کو توہین عدالت کے مقدمے میں مقامی سماجی حلقوں کی حمایت اصل ہے تاہم وکلاں کو شک ہے کہ شیورون عدالت پر اثرانداز ہو رہی ہے۔ انہوں نے میڈیا میں گفتگو کے دوران عوام سے مدد کی درخواست کی ہے اور کہا ہے کہ اب یہ معاملہ ظلم کے خلاف اٹھنے والی آواز اور عوام کے حقوق کے تحفظ کا مسئلہ بن چکا ہے۔
اگر ڈونژیگر کو سزا ہوئی تو اگلا نشانہ دیگر سماجی کارکن اور صحافی ہوں گے۔ وکلاء نے کھل کر امریکی نظام انصاف پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر کسی معاملے میں بڑی کمپنی کا مفاد ملوث ہو تو ہمارا نظام انصاف کھڑکی سے باہر چھلانگ لگا دیتا ہے، اور یہ صورتحال ہم سب امریکیوں کے تحفظ کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔
ڈونژیگر کے وکلاء کا کہنا ہے کہ شیورون کمپنی ایک دہائی قبل ہوئے فیصلے کے تحت ایکواڈور کے متاثرہ افراد کو ادائیگی روکنے کے لیے اب ڈونژیگر کو گندا کرنے کی حکمت عملی پر گامزن ہے۔ جس میں وہ مقدمے کی بنیاد پر سوال اٹھاتے ہوئے اسے جھوٹ اور دھوکے سے حاصل کیا گیا فیصلہ قرار دے کر عدالت کو گمراہ کرنے کے تاثر کے ساتھ اسے معطل کروانے کی کوششوں میں لگے ہیں۔ 2014 میں بھی نیویارک کی ایک مقامی عدالت نے ڈونژیگر کے خلاف کمپنی کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے ماحولیاتی وکیل اور ایکواڈور کے 30 ہزار متاثرہ دیہاتیوں کے درمیان ہونے والی گفتگو کا سارا ریکارڈ عدالت میں جمع کروانے کا حکم دیا تھا، جو اپنی نوعیت کا عجیب فیصلہ تھا۔
ڈونژیگر نے نیویارک کی عدالت کے اس فیصلے کے خلاف بھی قانونی چارہ جوئی کی اور اسے وکیل اور اسکے مؤکل کے نجی معاملے میں دخل اندازی اور غیر قانونی قرار دیا۔
شیورون نے ڈونژیگر کے خلاف مزید بہت سے جھوٹے فوجداری مقدمات بھی دائر کر رکھے ہیں اور اسے مستقل مؤکلوں کو بھی ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے تاکہ وہ ڈونژیگر کی مالی معاونت کو روک سکیں اور دباؤ میں لا کر اسے ایکواڈور کے غریب دیہاتیوں کی مدد سے باز کر سکیں۔
مقدمے میں ہونے والی نئی پیش رفت میں مقدمہ ایک ایسی خاتون جج ریتا گلیون کے پاس بھیجا گیا ہے جو ماضی میں شیورون کمپنی کی وکیل رہی ہے اور ایک بدعنوان شہرت کی حامل جج ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈونژیگر کے وکلاں نے نظام عدل پر سوال اٹھایا ہے اور کہا ہے کہ جب امریکی نظام عدل کے سامنے کسی بڑی کمپنی کا مفاد آجائے تو یہ مفلوج ہو جاتا ہے اور کھڑکی سے باہر چھلانگ لگا دیتا ہے۔
یاد رہے کہ ڈونژیگر نے مقدمے کو اپنی زندگی کے 30 سال دیے ہیں، جبکہ نیو یارک کی عدالت نے کمپنی کو ہرجانے کی ادائیگی کا پابند کرنے کے بجائے 2019 میں نظر ثانی کی درخواست میں کسی فرد واحد کے خلاف اپنی نوعیت کا سخت ترین فیصلہ کرتے ہوئے ڈونژیگر کو 34 لاکھ ڈالر جرمانہ، شیورون کمپنی کے تمام اخراجات کی ادائیگی کی سزا سنائی تھی۔ عدالت نے سماجی کارکن کو فرار ہونے کے شبہے میں گھر پر قید کرنے کا حکم بھی دیا اور رقم کی ادائیگی تک قید کو برقرار رکھنے کا کہا۔
اب نظر ثانی کی درخواست میں اگر ڈونژیگر کو سزا سنائی گئی تو یہ 6 ماہ کے لیے جیل یاترا پر جا سکتے ہیں۔