ایرانی حکومت کا امریکہ کے ساتھ جوہری معاہدے کی بحالی کے حوالے سے کا اظہار سامنے آیا ہے۔ ایرانی حکومت کے ترجمان علی ربیعی نے کہا ہے کہ وہ ویانا میں ہونے والے 2015 کے ایران جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے امریکہ کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات کی پیشرفت سے کافی پرامید ہیں۔
آسٹریا کے دارالحکومت میں بین الاقوامی معاہدے کی بحالی کے لیے مذاکرات جاری ہیں۔ ایرانی وفد کے ترجمان کا کہنا ہے کہ بڑے تنازعات پرعمومی اتفاق ہوگیا ہے، تاہم ایرانی مذاکرات کار عباس اراقچی ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے زیادہ محتاط الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے پائے گئے، ان کا کہنا تھا کہ سنجیدہ اور اہم امور کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔
مذاکرات میں شامل روسی نمائندے اور اقوام متحدہ کے جوہری نگرانی کے ادارے بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے سفیر میخائل الیانوف بھی مذاکرات کے حوالے سے کافی مثبت اور پرامید دکھائی دیے، اپنی ٹویٹ میں انہوں نے کہا کہ مذاکرات کا پانچواں دور “حتمی ہوسکتا ہے”۔
ان کے امریکی ہم منصب، رابرٹ میلے نے بھی ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ مذاکرات کا پچھلا دور “تعمیری” تھا لیکن معاہدے کو ختمی شکل دینے کے لیے “ابھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے”۔
امریکی صدر جوبائیڈن نے امریکہ کی جوہری معاہدے میں واپسی کے لیے رضامندی کا اظہار کیا ہے، جو ایران کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے روکنے کے عوض معاشی پابندیوں سے آزاد کرتا ہے۔
یاد رہے کہ معاہدے کی پاسداری نہ کرنے کا الزام لگاتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے معاہدہ توڑ دیا تھا اور ایران پر واپس معاشی پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ معاہدے سے امریکی انخلاء کے بعد ایران نے باقائدہ معاہدے کی شرائط کی خلاف ورزیاں شروع کردیں، جن میں یورینیم کی صفائی اور ذخیرہ کرنے کی مقدار والی حدود کی پامالی بھی شامل تھیں۔
ایرانی حکام نے یورینیم کی صفائی اور افزودگی کو 60٪ تک لے جانے کے فیصلے کا اعلان کیا ہے جو معاہدے کے تحت طے شدہ 3.67 فیصد کی سطح سے کئی گناء زیادہ ہے۔ اس سے قبل بھی ایران کی یورینیم کی صفائی کی حدود کی خلاف ورزی پر امریکی صدور ایران کو تنبیہ کرتے رہے ہیں اور صدر بائیڈن بھی اسے معاشی پابندیاں ہٹانے میں بڑی رکاوٹ قرار دے چکے ہیں۔
معاہدے کی بحالی کے لیے جاری مذاکرات میں مزید پیشرفت کے لیے ایران نے اقوام متحدہ کی جوہری ایجنسی کے نمائندگان کو مزید معائنے کی اجازت بھی دے دی ہے۔