اقوام متحدہ کے شعبہ حقوق کی ایک تازہ رپورٹ میں غیر روائیتی سمندری رستوں سے ہجرت کے دوران مارے جانے والے انسانوں کی ہلاکت کا ذمہ دار یورپی یونین، اس کے ارکان ممالک اور دیگر منسلک اداروں کو ٹھہرایا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سالانہ ہزاروں تارکین وطن کی موت یورپی سیاسی اشرافیہ کی جانب سے معاملے پہ غیر سنجیدہ رویہ اور ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالنے کے کی وجہ سے ہے۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے “جان لیوا نظر اندازی” کے عنوان سے ایک رپورٹ مرتب کی ہے جس میں غیر روائیتی طریقوں سے ہجرت کرنے والوں کے مسائل کو اجاگر کیا گیا ہے، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنگوں اور غربت سے خود کو بچانے کےلیے سالانہ لاکھوں افراد افریقہ اور مشرق وسطیٰ سے یورپ کا سفر کرتے ہیں، جن مین سے ہزاروں کی رستے میں یا سرحد پر پہنچ کر موت واقع ہو جاتی ہے۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق مشیل بیچلیٹ نے اس رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے یورپی یونین اور لیبیا پر انسانی جانوں کی حفاظت کے لیے قوانین میں فوری اصلاحات کا مطالبہ کیا ہے۔
اس رپورٹ میں بنیادی طور پر وسطی بحیرہ روم کے راستے یورپ میں داخل ہونے کے دوران ہلاکتوں پر روشنی ڈالی گئی ہے، جو لیبیا سے مالٹا اور جنوبی اٹلی تک پھیلا ہوا ہے۔ اگرچہ یہ راستہ مختصر ترین راستوں میں شمار ہوتا ہے اور افریقی تارکین وطن عمومی طور پر اسی راستے کو استعمال کرتے ہیں لیکن ہر سال ہزاروں افراد اس راستے میں موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق صرف گزشتہ 3 ماہ میں 632 تارکین وطن اس راستے میں جاں بحق ہوئے ہیں۔ جنوری 2019 سے دسمبر 2020 تک کم از کم 2239 تارکین وطن اسی سمندری رستے میں جاں بحق ہوئے۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ اس معاملے کو صرف سیاسی الزام تراشی نہ سمجھا جائے بلکہ لیبیا، یورپی یونین اور دیگر ادارے اس مسئلے پر ٹھوس پالیسی مرتب کریں تاکہ قیمتی جانوں کے ضیاع کو روکا جا سکے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ صرف سمندر عبور کرتے ہوئے ہی ہلاکتیں نہیں ہوتی ہیں بلکہ بچاؤ اور روک تھام کی نام نہاد کوششوں کے دوران بھی بہت سارے تارکین وطن اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
بیچلیٹ نے مزید کہا کہ ہر سال لوگ ڈوب جاتے ہیں، کیونکہ ان کے لیے مدد یا تو دیر سے آتی ہے یا کبھی نہیں آتی ہے۔ اور جن لوگوں کو بازیاب کیا جاتا ہے انہیں بعض اوقات کئی کئی دن یا ہفتوں کا انتظار کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے، جس کے بعد یورپی اشرافیہ یا تو تارکین وطن کو قبول کرنے کا فیصلہ کرتی ہے یا انہیں واپس لیبیا کی طرف دھکیل دیاجاتا ہے۔
رپورٹ میں نہ صرف یورپی یونین کی سرحدی تحفظ کے نام پر کی جانے والی کارروائیوں پر تنقید کی گئی ہے بلکہ غیر سرکاری تنظیموں کے ذریعے مہاجرین کو ملنے والی امدادی کاروائیوں میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام بھی لگایا گیا ہے، رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ یورپی اتحاد لیبیا کی انتظامیہ کو بھی تارکین وطن کو پکڑنے اور انہیں لیبیا میں پکڑے رکھنے کے لیے مالی معاونت کرتی ہے۔ رپورٹ میں دیے گئے اعدادوشمار کے مطابق 2020 میں اسی منصوبے کے تحت لیبیا نے کم از کم 10352 تارکین وطن پکڑے اور انہیں عارضی قید میں رکھ کر چھوڑ دیا گیا۔ 2019 میں یہ تعداد ساڑھے 8 ہزار تھی۔
رپورٹ کے مطابق کورونا وباء کے دوران قبول کیے گئے/ معیار پر پورا اترنے کے باوجود تارکین وطن کو 15،15 روز کے لیے چھوٹی کشتیوں میں ہی قرنطینہ کرنے کی شکایات درج ہوئی ہیں۔