معروف سماجی رابطہ نیٹ ورک واٹس ایپ نے ہندوستانی حکومت کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے۔ مقدمے میں حکومت کے متعارف کردہ اس قانون کے خلاف درخواست دی گئی ہے جس میں بھارتی سرکار وٹس ایپ پہ پیغامات تک رسائی کے لیے قانون سازی کر رہی ہے۔ وٹس ایپ کا مؤقف ہے کہ قانون رازداری اور بنیادی آئینی حقوق کے خلاف ہے۔
فیس بک کی ذیلی کمپنی نے منگل کے روز ہندوستانی دارالحکومت کی اعلیٰ عدالت سے حکومتی اقدام کو منسوخ کرنے کی درخواست کی ہے۔
فروری میں اعلان کیے گئے اس قانون کو حکومت ہند نے بدھ کے روز نافذ العمل کیا تھا۔
واضح رہے کہ دہلی ہائی کورٹ نے اگر قانون منسوخ نہ کیا تو بھارت میں کام کرنے والے تمام سماجی میڈیا نیٹ ورک صارفین کی شناخت اور نجی گفتگو کو محفوظ رکھنے میں ناکام ہو جائیں گے اور یہ مودی سرکار کی بربریت کی نئی تاریخ رقم کرے گا۔
واٹس ایپ اس وقت بھارت میں حیرت انگیز طور پر 40 کروڑ صارفین کے ساتھ سب سے مقبول نیٹ ورک ہے، وٹس ایپ کی بنیادی کمپنی فیس بک بھی وٹس ایپ سے کم صارفین کی حامل ہے، اور صرف 29 کروڑ افراد اس کا استعمال کرتے ہیں۔ ہندوستان میں ٹویٹر کے صارفین کی تعداد صرف 1 کروڑ 70 لاکھ ہے۔
اگرچہ واٹس ایپ، فیس بک اور دیگر بڑے سماجی ذرائع ابلاغ کی ویب سائٹوں کو ہندوستان کی بڑی منڈی میں آپس میں مقابلہ کرنے میں محو رہنا چاہیے تھا لیکن ہندتوا کے زیر انتظام یہ تمام کمپنیاں اکثر نئی دہلی میں حکومت سے مجادلے میں مصروف نظر آتی ہیں۔ اسی ہفتے پولیس نے دہلی میں ٹویٹر کے آفس پر چھاپہ مارا ہے اور کمپنی پر اپنی ہی حکومت کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنماؤں کے ہاتھوں غلط استعمال کا الزام لگایا ہے اور تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ مقامی ذرائع ابلاغ نے حکومت پر الزام لگایا ہے کہ اس نے ٹویٹر پر کورونا وباء سے متعلق بدانتظامی کے پیغامات اور تنقید کو ابھرنے سے روکنے کے لیے دباؤ ڈالا ہے، معروف مقامی صحافیوں کے مطابق حکومت نے دباؤ گمراہ کن معلومات کے نام پر ڈالا اور کہا کہ اس سے بیرون ملک ہندوستان کی غلط شبیہ جا رہی ہے۔
گزشتہ ماہ بھی ایک باقائدہ حکمنامے کے تحت حکومت نے ٹویٹر کو کووڈ-19 کو سنبھالنے میں بھارتی حکومت کی ناکامی سے متعلق تنقیدی پیغامات حذف کرنے کا حکم دیا تھا۔ جسے کمپنی نے فوری قبول کر لیا کیونکہ حکومت نے عمل نہ کرنے کے نتیجے میں کمپنی کے ملازمین کو جیل بھیجنے کی دھمکی دی تھی۔
واضح رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ ہندوستان میں امریکی سماجی ذرائع ابلاغ کمپنیوں کے عملے کو گرفتاری کے نام پر ہراساں کیا گیا ہو، امریکی جریدے وال اسٹریٹ جرنل کی مارچ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بھی دعویٰ کیا گیا تھا کہ فیس بک، واٹس ایپ اور ٹویٹر کو ہندوستانی حکومت ہراساں کرتی رہتی ہے اور خود پر تنقید کے پیغامات کو خذف کروایا جاتا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق کمپنیاں کاروباری مفادات میں ایسا کرتی ہیں۔