یورپی ذرائع ابلاغ میں امریکہ پر یورپی سیاستدانوں کی جاسوسی کا الزام لگایا گیا ہے۔ ناجائز امریکی سائبر سرگرمیوں سے متعلق انکشافات کرنے والے ایڈورڈ اسنوڈن نے بھی خبروں کی تصدیق کی ہے بلکہ سی آئی اے کی اس سرگرمی میں ڈنمارک کی معاونت کا انکشاف بھی کیا ہے، سنوڈن کے بقول صدر جو بائیڈن بھی اس بارے میں اچھی طرح آگاہ ہیں۔
یورپی تحقیقاتی اداروں نے معاملے کی تحقیقات شروع کر دی ہیں، ابتدائی اطلاعات کے مطابق جرمنی کی چانسلر انجیلا میرکل اور صدر فرینک والٹر اسٹین میئر فہرست میں اول نمبر پر ہیں جن کی امریکی قومی سلامتی کے ادارے کی جانب سے جاسوسی کی گئی اور اس میں ڈنمارک کی دفاعی سروس (ایف ای ای) کی معاونت شامل رہی۔
ایڈورڈ اسنوڈن کے مطابق امریکہ نہ صرف اپنے شہریوں بلکہ دیگر ممالک کے رہنماؤں کی جاسوسی بھی کرتا ہے، سنوڈن نے خاص طور پر انکشاف کیا ہے کہ انجیلا میرکل کے نجی فون تک پر امریکہ کو مکمل رسائی حاصل تھی۔
یورپی سیاسی رہنماؤں کی جاسوسی کی خبریں یورپ کے متعدد اخبارات میں شائع ہو رہی ہیں، جن میں ڈنمارک، جرمنی، سویڈن، ناروے اور فرانس کے قومی و دیگر نجی نشریاتی ادارے نمایاں ہیں۔
تحقیقات کے مطابق، جرمنی، سویڈن، ناروے، نیدرلینڈز، فرانس اور یہاں تک کہ ڈنمارک کے مالیاتی اداروں اور صنعتوں سے وابستہ سیاست دانوں کو بھی امریکی جاسوس ادارے نے ڈنمارک کے جاسوسوں کی مدد سے نشانہ بنایا ہے۔ ڈنمارک کی حکومت نے قومی دفاعی ادارے کے امریکہ کو برسوں سے دستیاب تعاون کا انکشاف ہونے پر تحقیقات کا آگاز کر دیا ہے اور ادارے کے سربراہ کو عہدے سے سبکدوش کر دیا گیا ہے۔ تاہم تحقیقات سے متعلق اتحادی ممالک کو کچھ نہیں بتایا گیا۔
مقامی یورپی ماہرین کے مطابق بنیادی طور پر امریکہ نے جاسوسی ڈنمارک کے مواصلاتی نظام کو استعمال کرتے ہوئے کی۔ جس میں اس لیے بھی آسانی رہی کیونکہ جرمنی، سویڈن، اور مغربی یورپ کے کچھ دیگر ممالک میں انٹرنیٹ کا سارا نیٹ ورک ایک دوسرے سے منسلک ہے، اور سیاسی رہنما اور دیگر اعلیٰ عہدیدار بھی عام نیٹ ورک کو استعمال کرتے ہیں۔
سنوڈن نے اپنی ایک ٹویٹ میں صدر بائیڈن کو جوابدہ قرار دیا ہے، سنوڈن کا کہنا ہے کہ جس وقت امریکی جاسوس ادارے نے یہ منصوبہ شروع کیا صدر بائیڈن اس وقت این ایس کے نائب صدر تھے لہٰذا ان پر اسکی پوری زمہ داری آتی ہے۔
دھماکہ خیز انکشافات پر ردعمل میں ناروے کے وزیر دفاع فرینک بکے جینسن کا کہنا ہے کہ وہ معاملے کا سنجیدگی سے جائزہ لے رہے ہیں۔ سویڈن کے وزیر دفاع پیٹر ہلٹکویسٹ نے بھی معاملے کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے، تاہم ڈنمارک اور امریکہ کی جانب سے تاحال کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔
جرمنی کے سابق حزب اختلاف کے رہنما اور میرکل کے حریف پیئر اسٹین برک نے قومی نشریاتی ادارے سے گفتگو میں کہا ہے کہ یہ ایک بڑا اسکینڈل ہے، انہیں افسوس ہے کہ اتحادی اور دوست ممالک بھی دوسرے ممالک اور سیاسی رہنماؤں کی جاسوسی کررہے ہیں۔ واضح رہے کہ پیئر اسٹین برک بھی ان رہنماؤں میں شامل ہیں، جنکی جاسوسی کی گئی۔
فرانسیسی وزیر خارجہ برائے یوروپی امور نے ردعمل میں کہا ہے کہ اگر ڈنمارک کے تعاون سے امریکی قومی جاسوس ادارے کی طرف سے یوروپی سیاست دانوں کی جاسوسی کی خبریں سچی ہیں تو یہ انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ یورپی اتحاد کے رکن ملک کی جانب سے اس میں معاونت انتہائی تشویشناک ہے، اس غلطی کی وضاحت طلب کی جانی چاہیے۔
فرانسیسی سیکرٹری مملکت برائے یورپی امور نے دھمکی دی ہے کہ اگر یہ سچ ہے تو امریکہ کو اس کے سخت نتائج بھگتنا ہوں گے۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق ڈنمارک کے وزیر دفاع ٹرین برینسن نے جاسوس اداروں کے ذریعے جاسوسی کے بارے میں قیاس آرائیوں پر کوئی بھی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔ امریکی خفیہ ادارے کے علاوہ امریکی دفتر برائے ڈائریکٹر آف نیشنل انٹلیجنس (ڈی این آئی) اور این ایس اے نے بھی خبررساں اداروں کی رپورٹ پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔