امریکہ کی چین کے خلاف شرانگیزی کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک نئی اشتعال انگیزی کرتے ہوئے جوبائیڈن کے مشیر برائے خصوصی افواج کرسٹوفر مائر نے تجویز رکھی ہے کہ امریکہ کو تائیوان میں امریکی کمانڈو تعینات کرنے پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے، اور تائیوانی فوج کے نصاب میں چین کے ممکنہ حملے کو روکنے کے طریقوں کی تربیت کو شامل کرنا چاہیے۔
کرسٹوفر مائیر کو خصوصی کارروائیوں اور کم شدت کے تنازعات کے لیے معاون سیکرٹری دفاع مقرر کیا گیا ہے، انہوں نے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں تائیوان میں خصوصی کمانڈو بھیجنے کی تجویز دی ہے، مائیر کا کہنا ہے کہ یہ کمانڈو نہ صرف تائیوان کی فوج کو چینی حملے کی صورت میں دفاع کے لیے تربیت دیں گے بلکہ ایک توانا مزاحمت کے لیے ذہن سازی بھی کریں گے۔
مائیر نے چین کو روکنے کے طریقوں کے بارے میں عکسکری کمیٹی کے اجلاس کے دوران کہا کہ خصوصی افواج کا اس میں کلیدی کردار ہو گا۔
واضح رہے کہ مائیر کا تبصرہ ایسے وقت سامنے آیا ہے جب کہ بائیڈن انتظامیہ عوامی جمہوریہ چین کے خلاف بیان بازی اور سخت ترین پالیسیاں متعارف کروا رہی ہے۔
صدر بائیڈں کے مشرق بعید کے لیے مشیر کرٹ کیمبل کے حالیہ ایک بیان سے بھی امریکہ کے چین کے لیے آئندہ نظریے کی عکاسی ہو جاتی ہے، کیمبل کا کہنا تھا کہ چین اور امریکی کے مابین گفت و شنید کا دور اختتام پذیر ہو چکا ہے، اب ایک نیا تمثیلی مسابقتی دور شروع ہو گا۔
صدر بائیڈن سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ان پالیسیوں پر عمل درآمد جاری رکھے ہوئے ہیں جن میں تائیوان کو چین کے خلاف استعمال کرنے کی کوششوں کا آغاز کیا گیا تھا۔
چین ہمیشہ سے ہی اس امریکی پالیسی کا ناقد رہا ہے اور اسے چین کے اندرونی مسائل میں مداخلت سے تشبیہ دیتاہے۔ واضح رہے کہ چین تائیوان کو اپنا ٹوٹا ہوا حصہ مانتا ہے اور اسکا مؤقف ہے کہ آج نہیں تو کل تائیوان واپس چین میں شامل ہو جائے گا۔
چینی وزارت خارجہ حال ہی میں تائیوان میں عدم استحکام کی زمہ داری امریکی اور جنوبی کوریائی عہدیداروں کو ٹھہرا چکی ہے۔ ترجمان وزارت خارجہ ژاؤ لیجیان نے واضح طور پر کہا کہ تائیوان خالصتاً چین کا داخلی مسئلہ ہے… اس میں بیرونی قوتوں کی مداخلت ناقابل قبول ہے۔ انہوں نے امریکہ اور جنوبی کوریا کو خبردار کیا کہ وہ آگ سے کھیل رہے ہیں۔
اگرچہ چین تائیوان کو اپنا حصہ مانتا ہے، لیکن 1949 میں چینی خانہ جنگی کے بعد سے اس پر خود مختار حکومت قائم ہے، اگرچہ اسے انتہائی کم ممالک نے بطور خود مختار ریاست تسلیم کر رکھا ہے لیکن امریکہ اور مغربی ممالک اسے چین کے خلاف شرانگیزی میں بھرپور طریقے سے استعمال کر رہے ہیں۔