نیٹو کے سیکرٹری جنرل نے روسی افواج کے سربراہ کو سرحدوں پر جاری کشیدگی کو کم کرنے کے لیے فوری بات چیت کی دعوت دی ہے۔ جینز سٹولتنبرگ نے برلن کے مقامی اخبار سے گفتگو میں کہا کہ نیٹو روس کے ساتھ سرحدوں پر کشیدگی کو لے کر فوری فیصلہ کن گفتگو کی کوششوں میں مصروف ہے، دونوں حریفوں کا پچھلے 19 ماہ یعنی ڈیڑھ سال سے بھی زائد عرصے سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔
نیٹو کے اعلیٰ ترین عہدے دار نے رابطے کی کوششوں سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ نیٹو گزشتہ 1 سال سے روسی حکام سے ملاقات کے لیے درخواست کر رہا ہے، لیکن روس کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا، اب روس کو دیکھنا ہے کہ وہ حالات کو کس طرف لے کر جانا چاہتا ہے۔ ہمارے پاس ایس ابہت کچھ ہے جس سے دونوں حریف فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
دوسری طرف دو ماہ قبل روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروو نے نیٹو کی کوششوں سے متعلق تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ روس باہمی دلچسپی کے امور پہ بات چیت نہیں کرنا چاہتا، لیکن ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم ملاقات کریں اور صرف یوکرین سے متعلق قصہ گوئی سنیں۔
روسی وزیر خارجہ نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ نیٹو کا یوکرین سے کچھ لینا دینا نہیں ہے، لیکن اسکے اجلاسوں میں پہلا مدعہ یوکرین ہی ہوتا ہے۔
جس کے جواب میں نیٹو جنرل سیکرٹری کا کہنا تھا کہ وہ کشیدگی پیدا کرنے والے ہر مدعے پر بات چیت کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں، تاکہ باہمی اعتماد میں ہوتی کمی کو روکا جا سکے، یورپ کی سرحدوں پر بھڑھتی روسی عسکری سرگرمیاں نیٹو کے لیے تشویش کا باعث ہیں۔
روسی دفتر خارجہ کی ترجمان ماریہ زاخارووا نے نیٹو درخواستوں پر کہا ہے کہ روس عسکری معاملات پہ گفتگو کے لیےتیار ہے، لیکن بات چیت فیصلہ کن اور مثبت ہونی چاہیے، جس کے نتیجے میں کشیدگی میں کمی ہو اور اشتعال انگیز واقعات کو روکا جا سکے، انکا مزید کہنا تھا کہ ایسی بات چیت میں عسکری قیادت اور ماہرین کو شامل نہ کرنا یا اس پہ اعتراض کرنا بلاجواز ہے۔
روسی وزیر دفاع نے گزشتہ ماہ نیٹو کی جانب سے روس کی سرحدوں پر افواج بڑھانے پر ردعمل میں کہا تھا کہ روس بھی اپنی افواج اور ہتھیاروں میں اضافہ کرے گا، انکا کہنا تھا کہ ہمارا مغربی ہمسایہ دنیا کے نظام دفاع کو ثبوتاژ کرنے پہ تلا ہے، اور ہمیں بھی ردعمل پر اکسا رہا ہے، روس اس اشتعال انگیزی کو خالی نہیں چھوڑے گا۔
یاد رہے کہ روس اور نیٹو افواج نے 2002 میں باہمی دلچسپی کے امور پر گفتگو کے لیے کونسل قائم کی تھی، اس سے 5 سال قبل سرد جنگ کے دونوں حریفوں نے ایک دوسرے کو دشمن نہ سمجھنے کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ لیکن نیٹو نے 2004 میں رومانیہ، سلوواکیہ ور سلووینیہ کو عسکری اتحاد میں شامل کر لیا، جسے روس کی جانب سے ناپسند کیا گیا اور روس نے اسے خطے مین امریکی اثرورسوخ بڑھنے کے تناظر میں دیکھا۔ روسی مؤقف ہے کہ سرد جنگ کے دوران نیٹو نے روس کو یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ مشرق کی طرف اپنی سرحدوں کو نہیں بڑھائیںگے، 2017 میں سامنے آنے والے کچھ سرکاری دستاویزات کے مطابق بھی روسی مؤقف کی تصدیق ہوئی تھی جس میں جرمنی، امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے روس کو یقین دہانی کروائی گئی تھی۔ روس بالٹک خطے میں اپنے وعدے کے برخلاف نیٹو کے پھیلاؤ سے نالاں ہے، اور اب امریکہ اور نیٹو پر اعتماد نہیں کر رہا۔ اس کے ساتھ ساتھ نیٹو عہدے داروں کے بیانات بھی روسی بداعتمادی میں اضافے کا باعث بنتے رہتے ہیں۔