اگرچہ مغربی ذرائع ابلاغ میں روس کے ساتھ تنازعات اور خطرے کی گھنٹیاں بجانا ایک معمول ہے تاہم ایک نئے عوامی سروے میں سامنے آیا ہے کہ یورپی شہریوں کی روس کے بارے میں منفی رائے میں نمایاں کمی آئی ہے۔
برلن میں قائم یورپی کونسل برائے خارجہ تعلقات کی شائع کردہ رپورٹ میں سامنے آیا ہے کہ یورپی یونین کے 12 رکن ممالک کے 17 ہزار سے زائد جواب دہندہ شہریوں کی نمایاں تعداد نے روس کو اہم شراکتی ملک قرار دیا ہے۔ شہریوں سے بین الاقوامی تعلقات کے بارے میں رائے لی گئی تھی جس کے جواب میں اکثریت نے روس کے بارے میں مثبت رائے کا اظہار کیا۔ 7 فیصد نے روس کو اتحادی کے طور پر بیان کیا جو ان کے بقول “یورپی مفادات اور اقدار کا شراکتی معاشرہ ہے”، جبکہ 35 فیصد کا کہنا تھا کہ روس ایک ضروری شراکت دار ہے اور یورپی قیادت کو ایک حکمت عملی کے ساتھ اس کے ساتھ تعاون بڑھانا چاہیے۔ 100 میں سے صرف 35 افراد نے کہا کہ انہیں لگتا ہے کہ روس اب بھی ایک حریف یا مخالف ملک ہے۔
مجموعی طور پر، اکثر جواب دہندگان نے محسوس کیا کہ روس کے ساتھ تعلقات چین، ہندوستان یا نیٹو کے ممبر ترکی کے ساتھ تعلقات سے زیادہ اہم ہیں۔ رپورٹ کے مصنفین نے انقرہ کے بارے میں تاثرات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
امریکہ اور برطانیہ وہ دو ممالک ہیں جن کے بارے میں یوروپی یونین کے باشندوں نے اچھے تعلقات کو برقرار رکھنے کے لیے سب سے زیادہ اصرار کیا۔ 60 فیصد سے زیادہ لوگوں نے دونوں سابق سیاسی حریفوں کو اتحادی کے طور پر بھی بیان کیا ہے۔
سروے میں شریک لوگوں نے امریکی سیاسی نظام پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔ جرمنی، سویڈن، آسٹریا، فرانس، اسپین اور ہالینڈ میں کم از کم نصف لوگوں نے کہا کہ امریکی سیای نظام یا تو مکمل طور پر یا کسی حد تک ٹوٹ چکا ہے۔
سروے میں سب کچھ مثبت نہیں ہے۔ جواب دہندگان کی اکثریت نے روس کے مقابلے میں یورپی یونین، امریکہ یا برطانیہ میں تیار کی گئی کرونا وائرس ویکسین کی خوراک لینے پر اعتماد کا اظہار کیا۔ تین میں سے صرف ایک نے روسی ساختہ ویکسین لینے پر رضامندی ظاہر کی۔ تاہم چین کے مقابلے میں یہ اعتماد اب بھی نمایاں طور پر زیادہ ہے۔ جواب دینے والوں میں سے صرف 24 فیصد لوگوں نے بیجنگ کے تیار کردہ فارمولے پر اعتماد کا اظہار کیا۔
اس سب کے برعکس مئی میں یورپی پارلیمنٹ کی خارجہ امور کمیٹی کے ذریعے شائع ہونے والی ایک دھماکہ خیز رپورٹ میں مستقبل کے لیے متعدد تجاویز کی نقاب کشائی کی گئی جس میں روس میں حکومت کی تبدیلی کی حمایت کرنے کے طور پر بڑے پیمانے پر ترجمانی کی گئی تھی۔ روس کے وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف نے اس رپورٹ کے بعد اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ روس اور یورپی یونین کے مابین تعلقات تاریخ کی نچلی ترین سطح پر آگئے ہیں، انہوں نے الزام لگایا تھا کہ تعلقات میں تناؤ برسلز میں لیے جانے والے یکطرفہ فیصلوں کا نتیجہ ہے۔