امریکی صدر جو بائیڈن نے افغانستان سے افواج کے مکمل انخلا کے اپنے فیصلے کا دفاع کیا ہے اور اس سلسلے میں وینتام جنگ جیسی کسی صورتحال کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ کابل میں موجود غنی انتظامیہ کو امریکہ کی مکمل حمایت حاصل ہے اور وہ امارات اسلامیہ افغانستان یعنی طالبان کو روکنے کی پوری طاقت رکھتے ہیں۔
امریکی صدر اور انکی انتظامیہ کو آج کل ہتھیاروں کی لابی کے زیر اثرلبرل امریکی میڈیا کی جانب سے سخت سوالوں کا سامنا ہے۔ آج میڈیا سے گفتگو میں صدر بائیڈن نے یہ اعتراف بھی کیا کہ امارات اسلامیہ افغانستان ملک کی اہم طاقت ہے اور یہ گزشتہ 20 سال سے ہے، تاہم انہوں نے امریکی افواج کی مدد کی حامل کابل انتظامیہ کو طالبان سے زیادہ طاقتور قرار دیا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ امارات اسلامیہ کے کابل پہ قبضے کا کوئی امکان نہیں ہے، انکے پاس صرف ۷۵۰۰۰ جنگجو ہیں اور کابل کے پاس ۳ لاکھ فوجی ہیں، جدید طیاروں سمیت دیگر اسلحہ بھی موجود ہے۔
امارات اسلامیہ افغانستان پر اعتماد کے حوالے صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ انہیں کوئی اعتماد نہیں ہے، لیکن انہیں یقین ہے کہ غنی انتظامیہ خطرے سے لڑنے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔ امریکی صدر نے حساس اداروں کی ان رپورٹوں کو بھی مسترد کر دیا جن میں کابل پر آئندہ کچھ ماہ میں دوبارہ امارات اسلامیہ افغانستان کی حکومت کی پیشنگوئی کی گئی ہے۔ صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ یہ جھوٹ ہے، کابل انتظامیہ ہر طرح کے خطرے سے نمٹنے کو تیار ہے، تاہم انہیں امن معاہدے کو کامیاب بنانے کی پوری کوشش کرنی چاہیے۔
صدر بائیڈن نے امریکی میڈیا سے گفتگو میں دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ وہ کہیں نہیں جا رہے، امریکہ کابل فوج کی پوری مدد کرتا رہے گا۔ آج تک کوئی بھی قوت افغانستان کو یک دل نہیں کر سکی، ممکن ہے ملک امارات اسلامیہ افغانستان اور کابل کے درمیان تقسیم ہو جائے۔
میڈیا سے گفتگو میں ویتنام جنگ جیسی صورتحال کی چہ مگوئیوں پر بات کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ امارات اسلامیہ کی فوج ویتنام جیسی باقائدہ فوج نہیں ہے، لہٰذا انکا وہاں سے موازنہ درست نہیں۔
دوسری طرف امریکہ نے ہنگامی صورتحال پر فوج کی خدمات اور معاونت کرنے والے افغان شہریوں کو خصوصی ویزے جاری کرنا شروع کر دیے ہیں۔ اب تھ ۲۵۰۰ شہریوں کو ویزے جاری بھی کیے جا چکے ہیں۔ جبکہ مختلف ذرائع کے مطابق یہ تعداد ۹ ہزار سے ۵۰ ہزار کے درمیان لگھ بگھ ہے۔