افغان طالبان نے ملک کی اندرونی سیاست پر جاری دنیا بھر کے منفی پراپیگنڈے پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ فی الحال کابل، امارات اسلامیہ افغانستان کے نشانے پر نہیں ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو میں ترجمان امارات اسلامیہ افغانستان کا کہنا تھا کہ اگر ستمبر میں معاہدے کے مطابق تمام غیر ملکی افواج ملک سے نہ نکلیں تو انہیں قابض کے طور پر دیکھا جائے گا اور اسی کے مطابق طالبان کا ردعمل بھی ہو گا۔ بیان کی مزید وضاحت کرتے ہوئے سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ غیر ملکی افواج میں فوجی، ٹھیکیدار اور وہ تمام عملہ شامل ہے جو حملے کا معاون ہے یا ہو سکتا ہے۔
ترجمان امارات اسلامیہ افغانستان کا مزید کہنا تھا کہ معاہدے کی خلاف ورزی کو برداشت نہیں کیا جائے گا اور افغان عوام کو اس پر جوابی کارروائی کا مکمل حق ہو گا، عوام ملکی قیادت کے فیصلے کو ہی آخری مانے گی۔
غیر ملکی سفارتی عملے اور غیر ملکی سرکاری تنظیموں کے حوالے سے اپنا مؤقف واضح کرتے ہوئے سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ ان کی کابل میں موجودگی پر امارات کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔
واضح رہے کہ طالبان کا بیان امریکی وزارت دفاع کی جانب سے سفارتی عملے کی حفاظت کے نام پر 1000 فوجیوں کے کابل میں ٹھہرنے کے بیان کے بعد سامنے آیا ہے۔ طالبان کا کہنا ہے کہ ایسے کسی اقدام کو معاہدے کی خلاف ورزی سمجھا جائے گا، جس پر امریکہ دستخط کر چکا ہے۔
یاد رہے کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 20 سال کی جنگ کے بعد طالبان کے ساتھ جنگ بندی اور فوجی انخلاٗ کا معاہدہ کیا تھا تاہم صدر بائیڈن نے تکنیکی بنیادوں پر انخلاٗ کے لیے مزید وقت مانگا اور اب ۱۱ ستمبر کو امریکہ میں حملے کی ۲۰ برسی سے پہلے انخلاٗ کی یقین دہانی کروائی تاہم مختلف بہانوں سے امریکہ افغانستان میں اپنے قیام کو یقینی بنانا چاہتا ہے اور اس کے لیے عالمی میڈیا میں امارات اسلامیہ افغانستان کے خلاف بھرپور پراپیگنڈا بھی کیا جا رہا ہے۔
یاد رہے کہ امریکہ کے علاوہ برطانیہ بھی افغانستان کچھ خصوصی کمانڈو برقرار رکھنے کا عندیا دے چکا ہے جبکہ نیٹو اتحادی ترکی بھی کابل ہوائی اڈے کی حفاظت کے نام پر افغانستان میں رکنے کی باتیں کر رہا ہے۔