شکور صاحب پر اللّٰہ کا بڑا فضل تھا، شہر کے پوش ترین علاقے میں رہائش پذیر تھے۔ صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے، عید الاضحیٰ پر جانور اپنی نگرانی میں ذبح کرواتے، گوشت کے حصے بنانے اور تقسیم کرنے میں شام ہو گئی۔ موسم کی شدت اور بھاگ دوڑ سے نڈھال ہو گئے۔ رات کھانے کے بعد جلد سو گئے۔ دوسرے دن بھی طبیعت میں کچھ کسلمندی سی رہی تقریباً سارا دن آرام کرتے گزرا۔ عید کے تیسرے دن ناشتے سے فارغ ہوئے تو ایک رشتے دار نواز کی علالت کا خیال آ گیا۔ تیار ہو کر ڈرائیور کے ساتھ مزاج پرسی کے لئے نکل پڑے۔ کچے علاقے میں ایک چھوٹے سے مکان کے سامنے رکے۔ دستک دی، دروازہ کھلا، اندر داخل ہوئے۔ نواز برآمدے میں چار پائی بچھاے لیٹا تھا، حال احوال پوچھا اور صحتمندی کی دعائیں دیں۔ نواز کی بیوی کچن میں کچھ بنا رہی تھی
“کیا بنا رہی ہو بیٹا” شکور صاحب نے پوچھا
“انکل جی دال چڑھائی ہے”
“آج بھی دال پکا رہی ہو”
“انکل گوشت کسی نے بھیجا ہی نہیں”
حساس طبیعت کے آدمی تھے، سن کر آبدیدہ سے ہو گئے۔ جیب سے رومال نکال کر آنسو پونچھے اور بغیر کچھ کہے اٹھ کر چلے آئے۔
گھر پہنچ کر فریزر کھول کر دیکھا تو دھک سے رہ گئے، چھ رانیں اور باقی سارا گوشت بھرا پڑا تھا۔ نڈحال سے ہو کر ٹی وی لاونج میں صوفے پر بیٹھ گئے۔ بیگم پانی کا گلاس لے آئی
“کیسی طبعیت ہے نواز بھائی کی _ آپ کچھ پریشان سے لگ رہے ہیں” “بیگم لگتا ہے ہماری قربانیاں قبول نہیں ہوتی رہیں _ قربانی کا گوشت تو بانٹا ہی نہیں گیا”
“کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ خود ہی تو حصے بنا کر بانٹ کر آئے تھے”
“جتنا ہمارا قربانی کا گوشت تھا اس سے زیادہ تو فریزر میں رکھا ہے تو بانٹا کیا ہے __ اسے بانٹنا نہیں کہتے، ایک دوسرے سے گوشت کا تبادلہ کہتے ہیں”
آپ بھی اپنا فریزر کھول کر ایک دفعہ چیک کر لیں کہ گوشت تقسیم کر دیا ہے یا صرف تبادلہ ہی کیا ہے۔