Shadow
سرخیاں
مغربی طرز کی ترقی اور لبرل نظریے نے دنیا کو افراتفری، جنگوں اور بےامنی کے سوا کچھ نہیں دیا، رواں سال دنیا سے اس نظریے کا خاتمہ ہو جائے گا: ہنگری وزیراعظمامریکی جامعات میں صیہونی مظالم کے خلاف مظاہروں میں تیزی، سینکڑوں طلبہ، طالبات و پروفیسران جیل میں بندپولینڈ: یوکرینی گندم کی درآمد پر کسانوں کا احتجاج، سرحد بند کر دیخود کشی کے لیے آن لائن سہولت، بین الاقوامی نیٹ ورک ملوث، صرف برطانیہ میں 130 افراد کی موت، چشم کشا انکشافاتپوپ فرانسس کی یک صنف سماج کے نظریہ پر سخت تنقید، دور جدید کا بدترین نظریہ قرار دے دیاصدر ایردوعان کا اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں رنگ برنگے بینروں پر اعتراض، ہم جنس پرستی سے مشابہہ قرار دے دیا، معاملہ سیکرٹری جنرل کے سامنے اٹھانے کا عندیامغرب روس کو شکست دینے کے خبط میں مبتلا ہے، یہ ان کے خود کے لیے بھی خطرناک ہے: جنرل اسمبلی اجلاس میں سرگئی لاوروو کا خطاباروناچل پردیش: 3 کھلاڑی چین اور ہندوستان کے مابین متنازعہ علاقے کی سیاست کا نشانہ بن گئے، ایشیائی کھیلوں کے مقابلے میں شامل نہ ہو سکےایشیا میں امن و استحکام کے لیے چین کا ایک اور بڑا قدم: شام کے ساتھ تذویراتی تعلقات کا اعلانامریکی تاریخ کی سب سے بڑی خفیہ و حساس دستاویزات کی چوری: انوکھے طریقے پر ادارے سر پکڑ کر بیٹھ گئے

ویتنام سے انخلاء کابل کی نسبت بہت بہتر تھا، کابل میں ناکامی کی وجہ نسبتاً بڑی بیوروکریسی اور بدعنوانی ہے: ویتنام اور کمبوڈیا جنگوں میں کام کرنے والے امریکی صحافی جم لاؤری کا تجزیہ

امریکی صحافی جم لاؤری نے افغانستان سے امریکی انخلاء میں سامنے آنے والی بے قائدگیوں پر کہا ہے اب چاہے کچھ بھی ہو جائے امریکہ تمام معاون افغانوں کو افغانستان سے نہیں نکالے گا۔ ویتنام جنگ میں نمائندے کے طور پر کام کرنے والے امریکی صحافی نے کابل سے انخلاء کو سائیگون سے مشابہت دی ہے اور کہا ہے کہ یہ کمبوڈیا اور ویت نام سے بھی زیادہ بری شکت ہے، جہاں دشمن افواج شہر میں داخل ہو چکی ہیں لیکن امریکی تاحال تذبذب کا شکار ہیں۔ جم لاؤری کا کہنا تھا کہ افغانستان امریکہ کے ناکام عسکری ابواب میں ایک بڑا اضافہ ہے۔

ہنگامی انخلاء پر جم لاؤری کا کہنا تھا کہ صورتحال سے لگتا ہے کہ امریکہ ان افغان شہریوں کی بڑی تعداد کو قسمت کے رحم و کرم پر چھوڑ کر نکل جائے گا جنہوں نے 20 سال امریکہ کے ساتھ تعاون کیا۔ جم لاؤری کا کہنا تھا کہ امریکہ کی تمام ناکام جنگوں میں بھرپور مماثلت پائی جاتی ہے لیکن 20 سالہ جنگ ہارنہ آسان نہیں ہوتا، امریکہ نے 50 برسوں میں دو 20 سالہ جنگیں ہاری ہیں۔

ویتنام سے انخلاء کو یاد کرتے ہوئے جم لاؤری کا کہنا تھا کہ سائیگون سے انخلاء کابل کی نسبت زیادہ منظم تھا، سائیگون سے امریکی فوج و اسلحہ باآسانی نکال لیا گیا تھا، اس سے پہلے کہ شمالی ویتنام سے کمیونسٹ افواج پہنچتیں۔ لاؤری نے صورتحال کا ذمہ دار امریکہ میں بیوروکریسی کے بڑھتے رحجان کو دیا اورکہا کہ 1975 میں بیوروکریسی کم تھی اور کام تیزی سے ہوتا تھا، اب افغان معاونین کے ساتھ ساتھ خود فوج کو خطرے میں ڈال دیا گیا ہے۔

جم لاؤری کا مزید کہنا تھا کہ سائیگون میں جنوبی ویتنام کی تیار کردہ امریکی افواج نے بھی شمالی ویتنامی گوریلا فوج کے سامنے 55 دن تک بھرپور مزاحمت کی اور ہموار انخلاء کو یقینی بنایا لیکن افغانستان میں امریکہ ایک بھرپور مزاحمتی فوج تیار کرنے میں بھی ناکام رہا۔ لاؤری کے مطابق ویت نام کا ساحلی علاقہ ہونا بھی ایک اہم تذوراتی معاونت تھی لیکن امریکہ افغانستان میں اس حوالے سے اپنے اتحادیوں کو بھی استعمال نہ کر سکا۔ امریکی صحافی کا کہنا تھا کہ یہ افغان فوج کی تیاری میں ناکامی ثابت کرتی ہے کہ پینٹاگون غیر ملکی معاون فوج تیار کرنے میں ناکام کھلاڑی ہے۔ امریکہ کمبوڈیا، ویت نام اور اب افغانستان میں اس حوالے سے بری طرح ناکام ہوا۔ امریکہ کے معاون فوج تیار کرنے کی تربیت اور ڈھانچے میں فرق ہے، افغانستان میں بدعنوانی کے قصے عالمی ذرائع ابلاغ کی سرخیوں کا حصہ بنتے رہے ہیں۔ ایک ایسی فوج کیسے امریکہ کے لیے لڑ سکتی تھی؟ لاؤری نے کمبوڈیا کا ذکر کرتے ہوے کہا کہ افغانستان کی طرح جنوبی امریکہ میں بھی لاکھوں کاغذی فوجی تھے، جن کی تنخواہیں ور دیگر اخراجات تو ادا ہوتے لیکن زمین پر کوئی فوجی نہیں تھا۔

افغان جنگ کے حوالے سے جم لاؤری کا کہنا تھا کہ امریکی پالیسی کی سب سے بڑی ناکامی کی وجہ ایک غیر یقینی ہدف تھا، ایک جنگ زدہ ملک میں قومی تشکیل اور ایسے غیر واضح ہدف شکست کے علاوہ کچھ نہیں دے سکتے تھے۔ امریکی صحافی کا کہنا تھا کہ زیادہ سے زیادہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد امریکہ کو افغانستان سے ہر صورت نکل جانا چاہیے تھا۔

دوست و احباب کو تجویز کریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

17 − 10 =

Contact Us