امریکی صحافی جم لاؤری نے افغانستان سے امریکی انخلاء میں سامنے آنے والی بے قائدگیوں پر کہا ہے اب چاہے کچھ بھی ہو جائے امریکہ تمام معاون افغانوں کو افغانستان سے نہیں نکالے گا۔ ویتنام جنگ میں نمائندے کے طور پر کام کرنے والے امریکی صحافی نے کابل سے انخلاء کو سائیگون سے مشابہت دی ہے اور کہا ہے کہ یہ کمبوڈیا اور ویت نام سے بھی زیادہ بری شکت ہے، جہاں دشمن افواج شہر میں داخل ہو چکی ہیں لیکن امریکی تاحال تذبذب کا شکار ہیں۔ جم لاؤری کا کہنا تھا کہ افغانستان امریکہ کے ناکام عسکری ابواب میں ایک بڑا اضافہ ہے۔
ہنگامی انخلاء پر جم لاؤری کا کہنا تھا کہ صورتحال سے لگتا ہے کہ امریکہ ان افغان شہریوں کی بڑی تعداد کو قسمت کے رحم و کرم پر چھوڑ کر نکل جائے گا جنہوں نے 20 سال امریکہ کے ساتھ تعاون کیا۔ جم لاؤری کا کہنا تھا کہ امریکہ کی تمام ناکام جنگوں میں بھرپور مماثلت پائی جاتی ہے لیکن 20 سالہ جنگ ہارنہ آسان نہیں ہوتا، امریکہ نے 50 برسوں میں دو 20 سالہ جنگیں ہاری ہیں۔
ویتنام سے انخلاء کو یاد کرتے ہوئے جم لاؤری کا کہنا تھا کہ سائیگون سے انخلاء کابل کی نسبت زیادہ منظم تھا، سائیگون سے امریکی فوج و اسلحہ باآسانی نکال لیا گیا تھا، اس سے پہلے کہ شمالی ویتنام سے کمیونسٹ افواج پہنچتیں۔ لاؤری نے صورتحال کا ذمہ دار امریکہ میں بیوروکریسی کے بڑھتے رحجان کو دیا اورکہا کہ 1975 میں بیوروکریسی کم تھی اور کام تیزی سے ہوتا تھا، اب افغان معاونین کے ساتھ ساتھ خود فوج کو خطرے میں ڈال دیا گیا ہے۔
جم لاؤری کا مزید کہنا تھا کہ سائیگون میں جنوبی ویتنام کی تیار کردہ امریکی افواج نے بھی شمالی ویتنامی گوریلا فوج کے سامنے 55 دن تک بھرپور مزاحمت کی اور ہموار انخلاء کو یقینی بنایا لیکن افغانستان میں امریکہ ایک بھرپور مزاحمتی فوج تیار کرنے میں بھی ناکام رہا۔ لاؤری کے مطابق ویت نام کا ساحلی علاقہ ہونا بھی ایک اہم تذوراتی معاونت تھی لیکن امریکہ افغانستان میں اس حوالے سے اپنے اتحادیوں کو بھی استعمال نہ کر سکا۔ امریکی صحافی کا کہنا تھا کہ یہ افغان فوج کی تیاری میں ناکامی ثابت کرتی ہے کہ پینٹاگون غیر ملکی معاون فوج تیار کرنے میں ناکام کھلاڑی ہے۔ امریکہ کمبوڈیا، ویت نام اور اب افغانستان میں اس حوالے سے بری طرح ناکام ہوا۔ امریکہ کے معاون فوج تیار کرنے کی تربیت اور ڈھانچے میں فرق ہے، افغانستان میں بدعنوانی کے قصے عالمی ذرائع ابلاغ کی سرخیوں کا حصہ بنتے رہے ہیں۔ ایک ایسی فوج کیسے امریکہ کے لیے لڑ سکتی تھی؟ لاؤری نے کمبوڈیا کا ذکر کرتے ہوے کہا کہ افغانستان کی طرح جنوبی امریکہ میں بھی لاکھوں کاغذی فوجی تھے، جن کی تنخواہیں ور دیگر اخراجات تو ادا ہوتے لیکن زمین پر کوئی فوجی نہیں تھا۔
افغان جنگ کے حوالے سے جم لاؤری کا کہنا تھا کہ امریکی پالیسی کی سب سے بڑی ناکامی کی وجہ ایک غیر یقینی ہدف تھا، ایک جنگ زدہ ملک میں قومی تشکیل اور ایسے غیر واضح ہدف شکست کے علاوہ کچھ نہیں دے سکتے تھے۔ امریکی صحافی کا کہنا تھا کہ زیادہ سے زیادہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد امریکہ کو افغانستان سے ہر صورت نکل جانا چاہیے تھا۔