اگر بیسویں صدی میں ہونے والے بڑے واقعات نہ ہوتے جن کے نتیجے میں روس میں انقلاب آیا اور ملک مکمل تباہی کے دہانے پر آگیا تو آج روس کی آبادی موجودہ تعداد سے کئی گناء زیادہ ہوتی۔ ان خیالات کا اظہار روسی صدر ولادیمیر پوتن کی جانب سے ماسکو میں اسکولوں کے طلباء کے ایک گروہ سے گفتگو کے دوران کیا گیا۔ صدر پوتن کا کہنا تھا کہ ملک کی خونی تاریخ ہماری آبادی میں کمی کی بڑی وجہ ہے۔ روس گزشتہ صدی میں 2 بار ٹوٹا اور ہر بار نئی بنیادوں پر کھڑا ہوا۔ صدر پوتن کا اشارہ 1917 میں آنے والے شراکتی انقلاب اور پھر 1992 میں سویت یونین کے ٹوٹنے کی طرف تھا۔
روسی صدر نے بچوں سے گفتگو میں کہا کہ اگر یہ سب نہ ہوا ہوتا تو آج کا روس بالکل مختلف ہوتا، اور اسکی آبادی کم از کم 50 کروڑ ہوتی۔
واضح رہے کہ اس وقت دنیا کے سب سے بڑے ملک روس کی آبادی صرف 15 کروڑ نفوس پر مبنی ہے، جس میں گزشتہ سوا سو برسوں میں صرف 3 کروڑ کا اضافہ ہوا ہے۔ روس اس وقت اپنا موازنہ امریکہ کے ساتھ کرتا ہے جہاں گزشتہ سو برسوں میں ملک کی آبادی 10 کروڑ سے بڑھ کر 32 کروڑ ہو گئی ہے۔
روس ان ممالک میں شامل ہے جہاں آبادی کے شدید فقدان کا سامنا ہے، کورونا وباء کے باعث بھی 5 لاکھ لوگوں کی موت ہو چکی ہے، اس کے علاوہ بچوں کی پیدائش اور وباء کے باعث ہجرت میں ہونے والی کمی بھی بڑے موجب ہیں، اس ساری صورتحال میں روسی حکومت گزشتہ کچھ عرصے سے شدید پریشانی کا شکار ہے۔ تاہم نائب وزیراعظم تاتیانا گولیکووا نے تازہ اعدادوشمار کے ذریعے امید کا اظہار کیا ہے، انکا کہنا ہے کہ 2019 اور 2020 کے دوران بچوں کی پیداوار میں ہونے والی سالانہ کمی 8٪ سے کم ہو کر 3٪ پر آگئی ہے، انہیں امید ہے کہ حکومت کی طرف سے چلائی جانے والی آبادی بڑھاؤ مہم سے صورتحال کو کامیابی سے سنبھالا جا سکے گا۔