پاکستان اور دیگر مسلم ممالک کی مسلسل کوششوں اور دباؤ کے نتیجے میں بالآخر امریکہ نے افغانستان کے لیے انسانی امداد کی منتقلی کو کھول دیا ہے۔ امریکی وزارت مالیات نے افغانستان کو انسانی امداد کے لیے بھیجے گئے ڈالروں کی منتقلی کی اجازت دی ہے جس کے تحت خوراک، ادویات اور دیگر بنیادی انسانی ضروریات کو وقتی طور پر پورا کیا جا سکے گا۔
اجازت تفصیلی جانچ پڑتال اور احتساب کی شرط پر دی گئی ہے جس میں امارات اسلامیہ افغانستان کو آنے والی امداد اور اس کے اصراف کی مکمل تفصیل دینا ہوگی، اور یہ یقینی بنانا ہو گا کہ یہ رقم ریاست کے انتظامی امور سمیت کسی دوسرے کام میں استعمال نہ ہو۔
اس موقع پر امریکی اعلیٰ عہدے دار کا کہنا تھا کہ ڈالروں کی منتقلی کی اجازت افغان عوام کے لیے کی گئی ہے، تاکہ لوگوں کی بنیادی ضروریات مکمل ہو سکیں۔ اس سلسلے میں دو خصوصی لائسنس جاری کیے گئے ہیں جس کے تحت اقوام متحدہ، بین الاقوامی امدادی تنظیمیں اور امریکہ یا دوسرے ممالک افغان عوام کے لیے رقوم اور امدادی سامان بھیج سکیں گے۔
یاد رہے کہ اگرچہ ڈالر بین الاقوامی پیسے کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن امریکی قومی پیسہ ہونے کی وجہ سے اس پر امریکی اجارہ داری ہے اور یہی وجہ ہے کہ امریکہ یکطرفہ طور پر اکثر عالمی تجارت اور معاملات میں مداخلت اور پابندیاں لگانے کی طاقتور حیثیت میں نظر آتا ہے۔ اس کے علاوہ دہشت گردی کی روک تھام کے نام پر امریکہ اور اسکے حواریوں نے اقوام متحدہ کے ذریعے عالمی بنکاری نظام اور رقوم کی منتقلی کو بھی بری طرح سے کنٹرول میں لے رکھا ہے جس کے باعث دنیا میں مغربی مالیاتی اجارہ داری کے خلاف نفرت اور بغاوت اس وقت اپنے عروج پر ہے۔ یہ نظام دنیا میں طبقاتی تفریق کو نئی حدود تک لے آیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پر مغرب کے خلاف نفرت نئی حدود کو چھو رہی ہے۔ اس کے علاوہ دنیا بھر میں بیشتر مزاحمتی تحریکیں بنیادی طور پر اسی اجارہ داری نظام کے خلاف زور پکڑ رہی ہیں۔
عالمی مالیاتی نظام پر مغربی اجارہ داری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک خود مختار آزاد ملک افغانستان کے 100 ارب ڈالر کے قریب ملکی خزانے کو امریکہ نے ایک ہی دن میں منجمند کر دیا، اور اسکا جواز اسی امارات اسلامیہ افغانستان کو ٹھہرایا جس کے ساتھ معاہدہ کر کے امریکہ اور اسکے اتحادی افغانستان سے جنگ ہار کر نکلے ہیں۔ آزاد بین الاقوامی اداروں اور میڈیا رپورٹوں کے مطابق بھی افغانستان میں امن کی صورتحال امریکی موجودگی کی نسبت کئی بہتر ہے لیکن حکومت کو اب بھی اپنے قومی خزانے تک رسائی دینے کے بجائے مغربی ممالک امداد کے نام پر دنیا میں نیک نامی کمانے کی بھونڈٰی کوشش کر رہی ہیں۔
مختلف عالمی اداروں کی رپورٹ کے مطابق اگر افغانستان کو اسکی مالیاتی رسائی نہ دی گئی تو آئندہ برس تک افغانستان کی 97٪ آبادی خط غربت سے نیچے چلی جائے گی اور ملک میں بڑا انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔ لیکن امریکی کانگریس میں ہونے والے افغانستان پر خصوصی اجلاس میں ریپبلک یا ڈیموکریٹ، دونوں جماعتوں میں سے کوئی بھی رکن کانگریس افغانستان کے پیسے چھوڑنے پر راضی نہیں۔ بلکہ کانگریس اجلاس میں سامنے آنے والے بیانات سے امریکی اشرافیہ کی کلی بھی کھل گئی۔ کانگریس میں افغانستان کا پیسہ نہ چھوڑنےکی وجہ میں دہشت گردی کا خطرہ ہونے کے بجائے کہا گیا ہے کہ افغانستان کا پیسہ چھوڑنے کا مطلب ہو گا کہ اپنی شکست کے زخموں پر مزید نمک پاشی کی جائے۔ یعنی دنیا کے طاقتور ترین ملک کی اشرافیہ ایک چھوٹے سے ملک اور گروہ سے سیاسی انتقام لینے کے لیے لاکھوں عوام کی زندگی سے کھیلنا چاہتی ہے، اور اقوام متحدہ سمیت دنیا اسکا تماشا دیکھ رہی ہے۔
مغربی رویے کے خلاف افغان سماجی میڈیا پر خصوصی ٹویٹر رحجان چل رہے ہیں جن میں عوام مغربی ممالک سے افغان رقوم چھوڑنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔