بنگلہ دیش کی پولیس نے مندروں اور ہندو آبادی کی املاک پر حملوں کے الزام میں 450 سے زائد مسلم شہریوں کو گرفتار کر لیا ہے۔ مسلم اکثریتی ملک میں مذہبی بنیادوں پر دنگوں کی یہ ایک بدترین مثال ہے۔ اس سے قبل 2017 میں گستاخی رسول کے الزام میں بھی ایک شہری کو ہجوم نے قتل کر دیا تھا، تاہم حالیہ واقعے کے بعد حالات انتہائی کشیدگی کا شکار ہیں۔
کچھ روز قبل ہندوؤں کے تہوار درگا پوجا کے جلوس میں دیوی کی مورتی کے قدموں کے نیچے سے مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن پاک کی جلد برآمد ہوئی تھی۔ جس پر مسلمان شدید برہم ہو گئے اور حکومت سے فوری واقعے میں ملوث افراد کو سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ ابھی واقعے کی تحقیقات جاری تھیں کہ ملک بھر میں احتجاج اور مظاہرے شروع ہو گئے اور لوگوں نے جتھوں کی صورت میں ہندوؤں پر حملے شروع کر دیے۔
انتظامیہ حالات کو سنبھالنے کی پوری کوشش کر رہی ہے لیکن انہیں شبہہ ہے کہ کیونکہ ابھی تحقیقات جاری ہیں اور اس میں مزید وقت لگ سکتا ہے، لہٰذا حالات کو کنٹرول رکھنا مشکل رہے گا۔ انتظامیہ نے اب تک 71 مقدمے قائم کیے ہیں اور مجموعی طور پر 450 افراد کو گرفتار کیا ہے۔
مختلف ذرائع کے مطابق دنگوں میں کچھ لوگوں کی جان بھی گئی ہے جن میں 5 ہندو اور 4 مسلمان شامل ہیں، لیکن تاحال انتظامیہ کی جانب سے اس کی تصدیق نہیں کی گئی۔
حکومت شہریوں سے پرامن رہنے اور انتظامیہ پر اعتماد کرنے کی درخواست کر رہی ہے۔ انکا کہنا ہے کہ واقعے میں ملوث افراد کو قرار واقع سزا دی جائے گی۔
یاد رہے کہ بنگلہ دیش میں ہندوؤں کی تعداد صرف 10٪ ہے لیکن یہ اہم عہدوں اور کاروباروں کے مالک ہیں اور اکثر مسلمان ان کے استحصال کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں۔
عوامی مظاہروں اور فسادات کے باعث عالمی برادری خصوصاً اقوام متحدہ کی جانب سے بھی تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔ عالمی برادری کا مطالبہ ہے کہ بنگلہ دیشی حکومت اقلیتی برادری کے تحفظ کو یقینی بنائے اور معاملے کی شفاف تحقیقات کروائے۔
اقوام متحدہ نے لوگوں کے مذہبی جذبات مجروح ہونے پر کوئی تبصرہ نہیں دیا۔
دوسری طرف شیخ حسینہ کی حکومت نے ملکی آئین میں ترمیم کا اعلان کرتے ہوئے 1988 میں اسلام کو ملکی مذہب قرار دینے کی ترمیم کو ختم کرنے کے ارادے کا اظہار کیا ہے۔ اور دوبارہ 1972 کی سیکولر ریاست بنانے کا اعلان کیا ہے۔